جلیل عالی ۔۔۔ کسی موسم ہوا سے دو ستی آغاز کرتے

کسی موسم ہوا سے دو ستی آغاز کرتے
پرندے دشت کے سارے شجر ہمراز کرتے

اک اوجِ شوق سے گر دیکھتے اِس شہرِ جاںکو
مناظر حیرتوں کے اور ہی در باز کرتے

فروزاں تھے لہو میں درد کے مہتاب جتنے
سب اُس کے عکس تھے کس سے کسے ممتاز کرتے

یہیں اِن وادیوں کی گونج بنتے گیت اپنے
انہی خاموش جذبوں کو جو ہم آواز کرتے

بجھا کر آفتاب اب اس کا ماتم کر رہے ہیں
گہن تو اک ذرا سا تھا نظر انداز کرتے

کوئی تو سطر عالی کہکشاں صورت چمکتی
کہیں تو سِحر کوئی پھونکتے ، اعجاز کرتے

Related posts

Leave a Comment