جلیل عالی ۔۔۔ رہ کوئی نکالی بھی تو کیا اپنا ہنر ہے

رہ کوئی نکالی بھی تو کیا اپنا ہنر ہے
تقدیر سے تقدیر کی جانب ہی سفر ہے

سب رنج و مصائب کا سبب اپنی خطائیں
ہر راحتِ جاں تاب کا سہرا ترے سر ہے

توڑا ہے زمانے کے حصاروں کو کئی بار
پر ذات کے غاروں سے کہاں ہم کو مفر ہے

پہچان ستارے تو گئے ہاتھ سے سارے
اک خواب سہارا بھی نہ چھن جائے یہ ڈر ہے

تاراج کیے اُس نے جنوں خیز حوالے
اب سوچ اجالوں کی طرف اس کی نظر ہے

اک سمت محبت ہے اور اک سمت ہے شہرت
مچلا ہوا دل اُس کا اِدھر ہے نہ اُدھر ہے

بے وجہ ڈراتا نہیں اوروں کو شب و روز
کہتا پھرے کچھ خوف نہیں اُس کو ، مگر ہے

کرتا ہے وہ تردید مری میری لغت میں
عالی یہ مری طرزِ فغاں ہی کا اثر ہے

Related posts

Leave a Comment