جلیل عالی ۔۔۔ سُنی نہ اُس نے کبھی شہرِ مبتلا کی کتھا

سُنی نہ اُس نے کبھی شہرِ مبتلا کی کتھا
سنائے جاتا ہے اک کھوکھلی رِجا کی کتھا

کسی کی وحشتِ دل میں گنوا گیا کوئی جاں
الگ دِیے کی کہانی ، جدا ہوا کی کتھا

پسِ حجابِ عبارت بھی غور سے دیکھیں
کہ اور بھی کوئی ہوتی ہے ہر کتھا کی کتھا

کیے ہوئے ہیں ہمیں اپنی منطقوں کا اسیر
مجھے ضمیر کا قصہ، اُسے انا کی کتھا

الم نصیب ہوئے دردِ مشترک میں قریب
تھی منفرد بھی ہر اک فردِ بے نوا کی کتھا

درونِ ذات بھی میں حالتِ جہاد میں ہوں
ترے لیے ہے فسانہ مری وفا کی کتھا

ترے فسونِ بیاں سے فلک نشاں ٹھہری
سنی سنائی ہوئی تھی جو بارہا کی کتھا

پڑھو کہ وادیِ کشمیر کے نہتوں نے
لکھی لہو سے نئی ایک کربلا کی کتھا

تراشتا ہے فسانے وہ نت نئے عالی
چھپائے چھپتی کہاں ہے مگر جفا کی کتھا

Related posts

Leave a Comment