جلیل عالی ۔۔۔ درد لکھے تو جانا کہ کیا کچھ برونِ بیاں رہ گیا

درد لکھے تو جانا کہ کیا کچھ برونِ بیاں رہ گیا
بات کی تو کھلا کس قدر فاصلہ درمیاں رہ گیا

ہر کسی کی نظر میں فقط سامنی سیڑھیوں کے دِیے
کس کو یہ سوچنے کی فراغت کہ کوئی کہاں رہ گیا

دل کے آنگن میں اترے کہاں سے کوئی روشنی کی کرن
آسمانِ وفا پر بجھے سورجوں کا دھواں رہ گیا

وقت کی آندھیوں سے سبھی چاہتوں کے شجر گر گئے
زندگی کا نشاں اک تری یاد کا سائباں رہ گیا

سوچ سیلاب عالی بہا لے گیا سب ہمارے یقیں
سطحِ احساس پر اپنے ہونے کا بس اک گماں رہ گیا

Related posts

Leave a Comment