صابر ظفر

کلام کرتا ہوا، راستہ بناتا ہُوا
گزر رہا ہوں میں اپنی فضا بناتا ہُوا

مجھے نہ ڈھانپ سکی عُمر بھر کی بخیہ گری
برہنہ رہ گیا میں تو قبَا بناتا ہُوا

یہی بہار ہے میری کہ میں گزرتا ہوں
ہر ایک خشک شجر کو ہرا بناتا ہُوا

ہر ایک شاخ بدستور لہلہاتی رہی
پرندہ سُوکھ گیا گھونسلا بناتا ہُوا

اب اور کیا ہو ظفر انتہا مشقت کی
شکستہ ہو گیا میں آئنہ بناتا ہُوا

Related posts

Leave a Comment