رخشندہ نوید ۔۔۔ ہر ایک لحظہ رُخِ داستان بھی بدلے

ہر ایک لحظہ رُخِ داستان بھی بدلے
وہ بات بات پہ اپنا بیان بھی بدلے

ہمارے سر سے کبھی غم کا آسماں نہ ہٹا
بدل کے دیکھ لی بستی ، مکان بھی بدلے

کبھی یہ وہم ہوا سنگ اُٹھائے پھرتی ہے
کبھی یقین کہ یہ آسمان بھی بدلے

اُس ایک شخص نے بدلا ہے میرا منظر زیست
پھر اس کے بعد زمین و زمان بھی بدلے

بدل کے رکھ دوں سوالِ حیات رخشندہ
مگر یہ کمرۂ امتحان بھی بدلے

Related posts

Leave a Comment