نوید صادق ۔۔۔ سونا چاہتا ہوں

سونا چاہتا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا بات ہوئی
تم مجھ سے دور چلے جاؤ گے
پہلے کم اُلجھیڑے ہیں
جو چاروں اور دھمالیں ڈالتے پھرتے ہیں

پہلے پہل مَیں سوچتا تھا
اِس دنیا میں
میں ہوں، میرے بعد بھی میں ہوں
لیکن !
وقت کے اپنے چکر ہیں
چکرا دیتے ہیں
آدمی نام اور کام کے چکر کو رہ جاتا ہے

صرف کہانی چلتی ہے
اچھا !تم بھی خوب سمجھتے ہو اِن جھگڑوں کو
دریاؤں کا پانی شہر میں داخلہ چاہتا ہے
خاموش!
ہمارے آنگن میں
اِک چڑیا پر پھیلائے بیٹھی ہے
اُڑنے کو تیار ہے، لیکن!
مَیں اب سونا چاہتا ہوں!

Related posts

Leave a Comment