فیض احمد فیض … وہی ہیں دل کے قرائن تمام کہتے ہیں

وہی ہیں دل کے قرائن تمام کہتے ہیں وہ اک خلش کہ جسے تیرا نام کہتے ہیں تم آ رہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں نہ جانے کیا مرے دیوار و بام کہتے ہیں یہی کنارِ فلک کا سیہ تریں گوشہ یہی ہے مطلعِ ماہِ تمام کہتے ہیں پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید گراں ہے اب کے مئے لالہ فام کہتے ہیں فقیہِ شہر سے مے کا جواز کیا پوچھیں کہ چاندنی کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں نوائے مرغ کو کہتے ہیں اب…

Read More

اے دل ِ بے تاب ٹھہر ۔۔۔ فیض احمد فیض

اے دلِ  بے تاب! ٹھہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیرگی ہے کہ اُمنڈتی ہی چلی آتی ہے شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو یہی تاریکی تو ہے غازہء رُخسارِ سحر صبح ہونے ہی کو ہے، اے دلِ بیتاب! ٹھہر ابھی زنجیر چھنکتی ہے پسِ پردہء ساز مطلق الحکم ہے شیرازہء اسباب ابھی ساغرِ ناب میں آنسو بھی ڈھلک جاتے ہیں لغزشِ پا میں…

Read More