نعت نامے پر ایک نظر … پروفیسر انوار احمد زئی

ارتقائے ادب میں ادبی مجلّوں کے مدیروں کے نام لکھے جانے والے خطوط نے ہمیشہ سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سید سلیمان ندوی اور علامہ اقبال کے درمیان ہونے والی مراسلت نے زبان و بیان سے لے کر شعری اور ادبی موضوعات کے تعین تک میں قابل ذکر مدد دی۔ اسی طرح نگار، ساقی، افکار، نقوش اور فنون جیسے رسائل کے مدیران کے نام جو خطوط آئے ان کا اب حوالہ ادبی جہات اور مکاتیب فکر کے درمیان فکری امتیاز و اختلاف کے ساتھ تحاریک ادب کے مابین مثبت اور منفی رویوں کے نتائج پر بھی بات کی جائے تو تحقیق کی نئی دنیا بسائی جاسکتی ہے۔ مگر اس وقت رجحان ساز نعتیہ کتابی سلسلہ ”نعت رنگ“ کے مدیر اور صاحبِ طرز نعت نگار سید صبیح الدین صبیح کے نام تحریر کردہ خطوط کا ضخیم مجموعہ ”نعت نامے“ میرے سامنے ہے۔میں نے جب ان خطوط کو جو 185 افرادنے تحریر کئے پڑھا تو نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگا جیسے یہ خطوط محض صبیح رحمانی کے نام نہیں ان کا ”مخاطَب“ تو میں بھی ہوں۔ اس طرح تو یہ نامے میرے نام بھی ہوئے بلکہ ہر اس قاری کے نام ہوئے جو نعت رنگ کے حلقے کا اسیر ہے اور فنِ نعت گوئی، ارتقائے صنفِ نعت اور نعت کی جہات و کیفیات جیسے موضوعات کو سمجھنا چاہتاہے۔
یہ سچ ہے کہ اپنے نام لکھے گئے خط پڑھنے کی لذت ہی اور ہوتی ہے، قطع نظر اس کے کہ مکتوب نگار کون ہے اور نامے کا متن کیا ہے۔ استحسان سے آراستہ یا لعن طعن سے آلودہ۔ اس طرح خط عمومی طور پر آئینہ رنگ ہوجاتا ہے۔ ہر رنگ، اپنا لگتا ہے، خاطر سے یا لحاظ سے مان ہی لیا جاتا ہے۔ مگر ایک اور طبقہ ہے جو دوسروںکے نام آنے والے خطوط کو پڑھنے میں زیادہ مسرت محسوس کرتا ہے، اس میں اخلاقی طریقت کا لحاظ تو لازمی ہے…. تاہم جو خطوط شائع ہو کر آپ کے سامنے ہوں اور ان میں خود سے تخاطب کے ساتھ زبانِ غیر سے بھی شرح کی گنجائش موجود ہو تو پھر مکتوبات کی خواندگی، لذتِ فکر سے بڑھ کر تسکینِ فکر و نظر کا سامان فراہم کرتی ہے اور اس وقت میرے لئے نعت نامے اسی توشہ¿ آسودگی کا استعارہ بنے ہوئے ہیں۔
جب بھی کچھ بڑوں نے کچھ بڑوں کو خط لکھے ان میں ”بڑے پن“ کا درس موجود رہا…. ان کی تحریریں ذات کے حصار کو توڑ کر تاریخ اور تعلیم کے سیاروں سے جا ٹکرائیں۔غالب کے خطوط…. نہ غالب کے ہیں نہ مکتوب الیہ کے، یہ ہر ایک کے لئے اور ہر دور کے لئے ہیں…. مکتوبات صدی، صدیوں پر محیط ہے، مولانائے روم کے خطوط جو اپنے عہد کے مقتدر شخصیت کے نام تھے جو سلطنت کا امیر بھی تھا اور ان کے حلقہ¿ درس کا اسیر بھی یا ملفوظات اکابر صوفیائے چشت جن کے اس وقت ”مخاطب“وہ نہ تھے جو آج ان سے مستفید ومستفیض ہورہے ہیں…. سو، مکتوب اگر ذاتی تعلقات سے آگے کی خبر دیں اور زمانہ شناسی کا حوالہ بن جائیں تو وہ اس کے نام نہیں ہوتے ، جس کے نام بظاہر ہوتے ہیں، وہ ان سب کے نام ہوتے ہیں، جن سے بباطن خطاب ہو…. اس لحاظ سے نعت نامے، اصلاح احوال،کیفیاتِ عشقِ رسالت، سلیقگی¿ تخلیقِنعت، استحسانِ ادبِ روحانی، شناسائے صنفِ نعت، آشنائے پیمانہ ہائے انتقاد و تخلیقات، مرقعِ نزاکتِ زبان، حُسن ادائے بیان، رمز و کنایے سے آراستہ نعت گوئی کا ارتقائی سفر، بحور و اوزان کی کسوٹیاں اور میزانیے…. تنقید پر تنقید ، اعتراضات کی توجیہات و تصریحا ت، کہیں درجوابِ آں غزل تو کہیں درتوصیفِ ادب و ادیب …. یہ سب موضوعات، اگر مکتوبات کے متون ہوں تو وہ مکتوبات کسی فردِ واحد کی میراث کیسے ہوسکتے ہیں…. اس کی ملکیت تو سورج کی روشنی اور پھولوں کی مہک کی طرح سے ہوتی ، جس نے اس سے متتمع ہونا چاہا، وہ گھر سے نکلا، روشنی میں نہایا اور ٹہلتا ٹہلتا ذرا باغ کو چل نکلا…. نعت نامے مجھے اسی آسودگی سے ہم کنار کررہے ہیں۔
اس مجموعے کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ ان میں نعت رنگ کے حوالے سے نعت گوئی کے قرینوں کو برتنے کے تمام ہی زاویے زیربحث لائے گئے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ ایک شمارہ سامنے آیا، اس پر جسے جو لکھنا تھا اس نے لکھا، مدیرنے ان ناموں کو اگلے شمارے کا حصہ بنایا، اس کے بعد طبلہ¿ عطار کھل گیا اور قیامت کے ناموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا…. یہ الگ الگ شماروں میں شائع تو ہوئے مگر انہیں اگر یکجا نہ کیا جاتا تو یہ بکھرے موتی تو رہتے ان کی مالا ہمارے سامنے نہ آپاتی۔ اس طرح ہوا یہ کہ پہلے خط سے لے کر آخری تک پڑھتے جایئے اور انہیں فکری سفر کے لئے زادِ راہ پایئے ۔ میں نے اسے ڈاکٹر محمد سہیل شفیق صاحب کا اختصاص اس لئے کہا کہ ہر ادبی مجلہ کے مدیر کے نام پر ہر ماہ ایسے خطوط آتے ہیں اور یقینا بے شمار و بے حساب آتے ہوں گے۔ ان میں سے وہ انتخاب کر کے اپنے شماروں میں جگہ بھی دے دیتے ہیں مگر انہیں یکجا کر کے ایک سرنامے کے تحت مجلے کے ادبی سفر کی تاریخ بنانا، اختصاص نہیں تو کیا ہے۔
ان خطوط میں پوشیدہ انتقادی زاویے، جو مختلف لکھنے والوں کے مختلف بھی ہیں اور ان سب سے کشید ہونے والی تنقیدی خوبی ان میں اقدار مشترک کا پتہ بھی دے رہی ہے اور پھر یہ تنقیدی زاویے چونکہ فن نعت گوئی اور اس کے انتقادی پیمانوں سے متعلق ہیں اس لئے ان پر بارِ دگرسے سوچنے اور پھر اجمالی طور پر کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس کی، تو یہ تحریر!!
اب جبکہ نعت کو بطور صنف تسلیم کیا جاچکا ہے اور اس صنف کی مختلف جہتوں، رویوں، پیمانوں، زاویوں اور ضرورتوں کے تناظر میں انتقادی کام بھی مسلسل کیا جارہا ہے، ساتھ ہی تحقیق اور تجسس دونوں حوالوں سے روحانی اور تصوفانہ رنگوں کے ساتھ خالص ادبی اور لسانی تقاضوں کے تناظر میں بھی بڑا کام ہورہا ہے اور اس سارے عمل میں نعت رنگ کا انفرادی کردار اور اس میں لکھنے والوں کا اجتماعی طریق اس سارے عمل کو کتنا وقیع، قابل قبول، قابل قدر اور قابل تقلید بنارہا ہے، اس لحاظ سے بھی ”نعت نامے“ کا مطالعہ اور اس کی لسانی و تہذیبی اہمیت کے تعین کا سوال غور طلب ہے۔
یہاں میرے ذہن میں یونانی فلسفی فلوطینس کا قول آرہا ہے…. 204 قبل مسیح میں پیدا ہونے والے اس مفکر نے عجیب بات کہی تھی کہ ”حسن کا ادراک ایک مخصوص طاقت کے ذریعے ہوتا ہے“…. بظاہر یہ سادہ سا جملہ اور وہ بھی صدیوں قبل کہا گیا، عجب لذتِ آشنائی رکھتا ہے، فلوطینس کو اپنی بات منوانے کے لئے بہت تردد کرنا پڑا تھا لیکن ہمارے پاس تو نسخہ¿ کیمیا ہے، ہم اس جملے کو چیستان نہیں سمجھتے…. بلکہ اپنے روحانی اور ایمانی نقطہ نظر سے اس کا مطالعہ کریں تو بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ حسنِ ازل کا ادراک ہمیں جس مخصوص طاقت کے ذریعے ہوا ہے وہ ذات ختمی مرتبت ہے اور پھر اس حسن ازل نے ہمیں محبوبِ خدا، وجہ وجودِ کائنات کا پتہ اور مرتبہ بتایا، تو پورا ایوانِ نعت تشکیل پاگیا۔ مگر اس ایوان کے در و بام، محراب و منبر، اطراف و اکناف کو سمجھنے کے لئے جس عقیدت و محبت کی ضرورت ہے اسی کو بصیرت کا فیض کہتے ہیں ، جس نے ہمیں اس مسئلہ کو سمجھایا کہ حسن ازل کے ادراک کے لئے جس مخصوص طاقت کی ضرورت تھی، وہی تو یاسین و طہٰ ہے،اور پھر اس منزل اولیٰ و اعلیٰ کی جانب قدم بڑھانے سے قبل جو لسانی پیمانے اور شعری بندشیں تقاضائے ادب و تنقید کرتی ہیں ان ہی کی روشنی میں لکھے گئے یہ خط جن کا ایک ایک حرف اپنی جانب سے اس پوری فضا کو استوار کررہا ہے وہی تو اس طاقت کا پتہ دے رہا ہے جو حسن کے ادراک کے لئے ضروری ہے۔
ادب و تنقید کے تعلق سے دیکھا جائے تو جس طرح ایک قسم کی تنقید فن کے بعد عالم وجود میں آتی ہے اسی طرح ایک قسم کی تنقید فن سے پہلے موجود ہوتی ہے اور تمام فنون میں اس کا وجود فرض کیا جاتا ہے۔ ان میں فرق ہے تو یہ کہ ایک زندگی کی تنقید ہے اور دوسری تنقید کی تنقید جو فکر کے اعتبار سے بعد میں جنم لیتی ہے لیکن زمانی لحاظ سے شاید اول الذکر کے ساتھ ہی پیدا ہوجاتی ہے۔ آپ کسی فن پارہ پر تنقید نہیں کرسکتے تاوقتیکہ وہ موجود نہ ہو لیکن تھوڑے سے غور سے یہ امر بھی منکشف ہوجاتا ہے کہ کوئی فن پارہ عالمِ وجود میں نہیں آتا جب تک کہ اس کے پیچھے تنقید موجود نہ ہو۔یہ نامے اسی مثلث کو متشکل کررہے ہیں۔ جہاں تخلیق سے قبل بھی تنقید ہے اور تخلیق کے بعد بھی انتقاد!!
صنفِ نعت کےلئے ایک الگ نوعیت کا تنقیدی شعور درکار ہوتا ہے، اس لئے کہ یہ کسی بھی نعتیہ تخلیق سے قبل ان انتقادی زاویوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کا متقاضی ہے جو نعت گوئی کے لئے لازم ہیں۔ ان میں سرور کونین کی ذاتِ اقدس کی تفہیم کی مقدور بھر کوشش، آپ کی حیات طیبہ کے مستند گوشوں تک رسائی ،آپ کے اقوال و افکار، اوصافِ حمیدہ، کردار طیبہ، پیغام ابدی اور تعلیماتِ سرمدی کے مناصب میں جو بجائے خود کسی بھی شہ پارے کی تخلیق سے قبل انتقادی تقاضوں سے مزین منزل کی تفہیم ہے اس کے بعد جب کوئی کاوش ذہن سے اتر کر قرطاس کی زینت بن جاتی ہے تو پھر تنقید کی نئی منزل سامنے ہوتی ہے۔ اس میں لسانی لذتیں، ادبی بندشیں، شعری لوازم، زبان کے تقاضے اور عہد گزشتہ سے عہد موجود تک کے وہ مضامین جو توارد سے پاک اور سرقے سے منزّہ ہوں، تب جاکر کاوشِ متعلقہ کو فنی ارتقا کے سنگھاسن پر متمکن دیکھا جاسکتا ہے اور یہی منصب ان ناموں کا ہے۔
یہ نعت رنگ کے قافلے کا امتیاز اور اس کے جواں ہمت اور جواں حوصلہ مدیر کی کاوشِ مسلسل کا انعام ہے کہ اس کے لکھنے والوں نے نہ صرف پہلے شمارے سے اپنے فرائض کی نزاکتوں کا خیال کیا اور انہیں اہتمام سے برتا بلکہ پھریہ ہوا کہ خود اس کے لکھنے والوں ہی میں سے ناقد اور ناصح بھی میسر آگئے…. ان لوگوں نے نعت رنگ کے ہر شمارے کا مطالعہ اس التزام سے کیا کہ اس میں کتابت کی لغزشوں سے لے کر عروضی کوتاہیوں، لسانی ناہمواریوں کے ساتھ نصوصِ قرآنی و احادیث تک کی پرکھ کو اپنا شعار بنالیا۔ ان لوگوں نے اس پر جم کر لکھا اور بے محابہ اور بے حجابانہ لکھا۔ ایسا کرتے ہوئے نہ ان اکابر ادبائ، شعرائ، ناقدین اور اساتذہ نے مسلکی روابط کو خاطر میں لانا پسند کیا نہ اپنے قبیل کی کوئی بے جا طرفداری کی۔ اس ماحول سے نتیجہ یہ نکلا کہ نعت گوئی اور نعت کے ضمن میں لکھے جانے والے نثر پاروں پر ایک ایسی جیوری خودبخود بیٹھ گئی جوا ن کے مقام اور مناصب کا تعین کرنے لگی۔ اس میں ایسا بھی ہوا کہ مباحث اور مکالمے کے در کھل گئے۔ ایک نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا تو دوسرے نے اپنے موقف کے حق میں دلائل جمع کئے۔ ان سب کاموں میں ادبی حوالے، تنقیدی پیمانے، عروضی زاویے، بحور اور تقطیع کے معاملات سب سامنے آتے گئے اور یوں کسی اور جریدے کے برعکس نعت رنگ کے اندر ہی ایسی سنڈیکیٹ تشکیل پاگئی جو خودبخود صنف نعت کے ارتقاءکا سبب اور ذریعہ بنی۔ اس سارے عمل میں مدیر نعت رنگ نے امپائر بننا بھی پسند نہ کیا، انہیں زیادہ سے زیادہ ریکارڈ کیپر کہا جاسکتا ہے جو انتہائی غیرجانبداری سے آئینہ لئے ہر ایک کو دکھایا کئے۔ خود اپنی جانب سے کچھ نہ کہا۔
آج جب 185 افراد کے خطوط کے اس استحسانی اور تنقیدی سرمائے سے گزرنا ہورہا ہے تو یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ عہد موجود کا شاید ہی کوئی قابل ذکر لکھنے والا ہوجس کا نامہ نعت نامے میں شامل نہیں ہے۔ مگر ان خطوط کو کیفیات کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے تو پانچ سرناموں کے تحت رکھا جاسکتا ہے۔
(1)     ایسے خطوط جنہیں رسیدی، تمہیدی، توصیفی، تعارفی اور تحسینی کہا جاسکتا ہے۔
(2)     ایسے خطوط جنہیں تنقیدی کہا جاسکتا ہے۔ انہیں زبان و بیان، عروض و بحور، تاریخی تصور، تہذیبی تناظر کے تعلق سے سمجھا جاسکتا ہے۔
(3)    ایسے خطوط جنہیں خالصتاً تحقیقی کہئے۔ جن میں نعت کے تاریخی پس منظر، اس صنف کے بتدریج ارتقائی منازل کی طرف مراجعت اور کسی بات، حوالے، حدیث یا قرآن کی سورہ یا آیت کے تعلق سے اصل کی تلاش کی سنجیدہ اور ایمانی کاوش کی گئی ہے۔
(4)    ایسے خطوط جن میں مسالک کے حوالے سے تبصرے موجود ہیں، ان میں ایسے تبصرے بھی زیربحث لائے گئے ہیں جنہیں مسلک سے وابستگی کے سبب لکھا گیا یا جنہیں کسی مسلک کے کسی اہم شخصیت کی کاوش پر حملہ ہوا یا جملہ ادا ہوا تو اس کی صحت کی مقدور بھر کوشش کی گئی…. یہ الگ بات کہ مقابل نے اسے مانا یا نہیں…. یا پھر سے اپنے موقف کی حمایت میں کچھ لکھنے کا حق استعمال کیا گیا۔
(5)      ایسے خطوط جنہیں تبلیغ دین اور تفہیم تہذیب ِ مشرق سے مملو قرار دیا جاسکتا ہے۔

Subject wise classification کے بعد اگر Intellect wise classification کی طرف آیا جائے تو بعض ایسے اہم نام سامنے آتے ہیں جنہوں نے تعداد کے لحاظ سے زیادہ خطوط لکھے اور مسلسل لکھے۔ ان میں علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی، ابوالخیر کشفی، احمد صغیر صدیقی، ڈاکٹر اشفاق انجم، افضل خاکسار، پروفیسر اقبال جاوید، پروفیسر محمد اکرم رضا، پروفیسر حفیظ تائب، حنیف اسعدی ، پروفیسر سید شفقت رضوی، محمد شہزاد مجددی، حافظ عبدالغفار حافظ، پروفیسر مسرور شاہ محمد، مظفر وارثی، ڈاکٹر معین الدین عقیل اورڈاکٹر یحییٰ نشیط شامل ہیں۔
یہ نامے اس لحاظ سے بھی الگ سے پڑھے جانے کے قابل ہیں کہ ان میں کہیں دین زوری ہے تو کہیں مسلک زوری اور کہیں کہیں تو منہ زوری اور سینہ زوری بھی…. اب یہ مدیر نعت رنگ کا کمال ہے کہ انہوں نے ان سب زور آوروں کو پوری طرح زور کرنے اور زور آزمانے اور زور دکھانے کا موقع دیا تاکہ ہمہ جہت فکری فضا تشکیل پاتی رہے…. اس ضمن میں پروفیسر سید شفقت حسین رضوی کے ایک مکتوب کا ایک حصہ ملاحظہ ہو۔

”جناب سُنّی مولانا حضرت صبیح رحمانی دام اقبالہ،
آپ کو سُنّی مولانا اس لئے کہا کہ یہاں ٹی وی پر کئی دن تک اشتہار آتا رہا عید میلاد النبی کا…. تقریب بھی سُنّی رضوی جامع مسجد میں…. اب مسجد یںمسلمانوں کی نہیں رہیں جانے کس کس نے قبضہ¿ ناجائز کر رکھا ہے ان پر۔
”یہاں اردو، اسلام اور پاکستان کی جو مٹی پلید ہورہی ہے آپ کا ملک اس سلسلہ میں بہت پیچھے ہے۔ آئے دن اردو مشاعرے اور کانفرنسیں ہوتی ہیں، مقامی نہیں سب انٹرنیشنل ہوتی ہیں…. معیار صفر درجے سے کم ہے، جو کسر رہ جاتی ہے وہ PTV Prime اور ARY پوری کردیتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے جو لوگ چینل چلارہے ہیں وہ خصوصیت سے اسلام دشمن اور پاکستان دشمن ہیں۔ دونوں کی بدنامی میں کمی نہیں کرتے۔ اگست کا پورا مہینہ دونوں چینلوں پر نئی نسل کے ہیجڑوں اور طوائفوں کے اشتہارات کا زور تھا، کوئی دن ایسا نہ تھا کہ آزادی کے نام پر ناچ گانوں کے اشتہارات نہ دکھائے جاتے ہوں، بے سُری آواز میں چیخ چیخ کر بے معنی گیت الاپنا، کمر مٹکانا، کولھے مٹکانا، چھاتیاں اچھالنا اس نسل کا پیشہ ہے، سنا ہے خوب کماتے ہیں اور ساری قوم کو نچاتے ہیں۔“

دیکھا آپ نے…. اس لحاظ سے یہ نامے، صرف تحریروں پر تنقید نہیں بلکہ تصویروں اور تشہیروں پر بھی مقدور بھر تنقید کی صورتیں ہیں۔ اس تناظر میں ان کی تاریخی اہمیت اور سماجی تنقید کی نوعیت اپنی جگہ مرتسم ہے، جنہیں آج ہی نہیں آنے والے کل کے قاری بھی یاد رکھیں گے۔
اس زور آور نامے کے بعد ایک رنگِ دگر کا حامل نامہ دیکھئے۔ سلطان جمیل نسیم جن کے افکار صبا اکبر آبادی کے ذکر کے بغیر کبھی مکمل نہ ہوئے وہ اپنے خط میں اس ”لازمی تذکرے“ کے بعد فرماتے ہیں۔

”بھائی ! ہمارا شاعر تو رسالے کا بھی وہی صفحہ پڑھتا ہے جس پر اس کا کلام بلاغت نظام شائع ہوا ہو…. اور جو شاعر پڑھے لکھے ہونے کے دعویدار ہیں وہ مشاہدئہ کائنات اور مطالعہ¿ قرآن و حدیث کی بجائے دیگر فلسفیوں کی کتاب پڑھتے ہیں۔ نعت صرف ضرورتاً کہتے ہیں، یعنی ریڈیو، ٹی وی کے مشاعروں کے لئے….“

اس مکتوب کی روشنی میں نعت نامے پڑھیں تو سلطان جمیل نسیم کے خیال سے یکسر اختلاف کرنا ہوگا۔ ان خطوط سے اندازا ہوتا ہے کہ نعت رنگ کا شاعر و ادیب نہ صرف اپنی تحریروں کو دوسروں کی تنقید کی روشنی میں دیکھتا ہے بلکہ دیگر احباب تحقیق کا حق ادا کرتے ہوئے اس قدر گہری نظر سے ارتقائے نعت کے عالم حسین کو دیکھتے اور دوسروں کو دکھاتے ہیں کہ ان کی کاوش پررشک آتا ہے اور ان کی ذات سے پیار بڑھ جاتا ہے۔ اس کی مثال میں حافظ عبدالغفار حافظ کے دو خطوط دیکھتے ہیں جن سے ان کے گہرے مطالعہ، عروض فہمی، زبان دانی اور تنقید کے تناظر میں قدر شناسی اور قدر دانی کی عجیب مثالیں سامنے آتی ہیں۔ مسلک کی طرفداری میں ان کا دہن اگر بگڑا ہے تو اسے بھی ان کا اسلوب سمجھا جانا چاہئے۔ تلخ یا شیریں، صحیح یا غلط!!!
یہ اور ایسے نامے اگر الگ سے موضوعات کے تعین کے ساتھ شائع کئے جائیں تو جدید تر تنقیدی زاویے سامنے آسکتے ہیں…. جی ہاں تو حافظ صاحب کے دو خطوط۔
13-06-2001
”محترم صبیح رحمانی صاحب!
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ!
آپ کا جریدہ ”نعت رنگ“ اگرچہ کئی خوبیوں کا حامل ہے لیکن ایسامحسوس ہورہا ہے کہ اس جریدہ کے ذریعے ایک باقاعدہ منصوبہ کے تحت اعلیٰ حضرت کے اشعار پر اعتراض ہورہا ہے۔ پہلے کشفی صاحب معترض رہے اور اب جناب ظہیر غازی پوری سامنے آئے ہیں۔
ظہیر صاحب نے ”نعت رنگ“ کے شمارہ نمبر 11 میں ”حدائقِ بخشش“ سے تین اشعار چن کر نکالے اور کہہ دیا کہ ان کے مصرعے بحر سے خارج ہیں۔ اگر ظہیر صاحب یہ ”کارنامہ“ انجام دینے سے پہلے کسی بھی عروض داں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرلیتے اور عروض کی باریکیاں سمجھ لیتے تو انہیں آج اس قسم کی شرمندگی نہ اٹھانی پڑتی۔
اب آیئے میں ظہیر صاحب کے اعتراضات کا جواب دیتا ہوں۔
ظہیر صاحب نے اعلیٰ حضرت کے جن اشعار کو بحر سے خارج قرار دیا ہے وہ یہ ہیں:
سب نے صفِ محشر میں للکار دیاہم کو
اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے
زائر گئے بھی کب کے دن ڈھلنے پہ ہے پیارے
اُٹھ میرے اکیلے چل کیا دہر لگائی ہے
ہم دل جلے ہیں کس کے، ہٹ فتنوں کے پرکالے
کیوں بھونک دوں اک اُف سے کیا آگ لگائی ہے
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ضرورتِ شعری کی بناءپر حرفِ علت گرایا جاسکتا ہے اور یہ قاعدہ اتنا عام ہے کہ ہر شاعر اس سے واقف ہے۔ مرزا داغ دہلوی مرحوم کا ”قصیدئہ اردوئے معلی“ بہت مشہور ہے۔ اپنے اس قصیدہ میں وہ فرماتے ہیں:
وزن سے ہرگز نہ کوئی حرف گرنا چاہیے
ہاں مگر گرنا الف اور واﺅ کا ہے روا
دوسری بات یہ کہ بعض مصرعے ذوالبحرین ہوتے ہیں اور انہیں دو بحروں میں پڑھا جاسکتا ہے۔ مثلاً علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
اقبال کا یہ شعر فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کے وزن پر ہے، مگر اس کا پہلا مصرع ذوالبحرین ہے اور وہ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن کے وزن پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص دونوں مصرعے مختلف اوزان پر پڑھ کر علامہ اقبال پر اعتراض کردے تو کیا کوئی عقل مند شخص اسے تسلیم کرے گا؟ ہرگز نہیں۔ یہی صوت حال اعلیٰ حضرت کے مذکورہ تینوں اشعار میں ہے۔ ظہیر صاحب نے عروض کی باریکیوں سے نابلد ہونے کی بناءپر جو اعتراض کیا ہے وہ لغوہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اعلیٰ حضرت کی مذکورہ نعت مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن کے وزن پر ہے لیکن پہلے شعر کے مصرع ثانی کا پہلا ٹکڑا ذوالبحرین ہے اور مفعول فاعلاتن کے وزن پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے اشعار میں مصرع ہائے اولیٰ کے پہلے ٹکڑے بھی ذوالبحرین ہونے کی وجہ مفعول فاعلاتن کے وزن پر بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔
شاید یہ تفصیل ظہیر صاحب کے پلے نہ پڑی ہو اس لیے بطور وضاحت میں تینوں اشعار کے پڑھنے کا طریقہ بتا دیتا ہوں۔
پہلا شعر: ”اے بے کسوں کے آقا“ میں ”بے کسوں“ کا واﺅ گرا کر پڑھیں۔
دوسرا شعر: ”زائر گئے بھی کب کے“میں ”گئے“ کی ”ی“ گرا کر پڑھیں۔
تیسرا شعر: ”ہم دل جلے ہیں کس کے “ میں ”جلے “ کی ”ی“ گرا کر پڑھیں۔
اب میں اس قسم کی مثالیں اساتذہ کے کلام سے پیش کرتا ہوں۔
میر تقی میر کی ایک غزل کے 2 اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
اب میر جی تو اچھے زندیق ہی بن بیٹھے
پیشانی پہ وہ قشقہ، زنّار پہن بیٹھے
آزردہ دل الفت ہم چپکے ہی بہتر ہیں
سب رو اُٹھے گی مجلس جو کر کے سخن بیٹھے
میر نے یہ غزل مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن کے وزن پر کہی ہے مگر پہلے شعر میں مصرع اولیٰ کا پہلا ٹکڑا اور دوسرے شعر میں مصرعِ ثانی کا پہلا ٹکڑا ذوالبحرین ہیں اور مفعول فاعلاتن کے وزن پر بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔
اس قسم کا ایک شعر فانی بدایونی کا بھی ملاحظہ فرمائیں۔ وہ کہتے ہیں :
جو دل میں حسرتیں ہیں سب دل میں ہوں تو بہتر
اس گھر سے کوئی باہر مہمان نہ رہ جائے
فانی نے یہ غزل مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن کے وزن پر کہی ہے لیکن اس شعر میں دوسرے مصرع کا پہلا ٹکڑا ذوالبحرین ہونے کی وجہ سے مفعول مفاعیلن کے وزن پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ ظہیر صاحب خود بھی اگر چاہیں تو اس قسم کی سیکڑوں مثالیں اساتذئہ کرام کے کلام سے نکال سکتے ہیں۔
ظہیر غازی پوری صاحب نے اعلیٰ حضرت کے ایک اور شعر میں ”یعنی “ کی ”ی“ گرانے پر اعتراض کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ”ی‘ ‘ گرانا کیوں ناجائز سمجھ لیا گیا جبکہ یہ عروض کے مسلّمہ اصولوں کے عین مطابق ہے۔ اس ضمن میں فانی بدایونی کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
بھر کے ساقی ایک جامِ زہر مے آلود لا
یعنی خاکم در دہن آج آتشِ دل تیز ہے
اس شعر میں بھی ”یعنی“ کی ”ی“ ساقط ہے۔
مرزا داغ دہلوی کے قصیدہ اردوئے معلّٰی کے مندرجہ ذیل اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں:
یاد رکھو نون آئے حرفِ علت کے جو بعد
چاہیے اعلان اس کو، نون غنہ بھی روا
یعنی دیں کو دین بولو، آسماں کو آسمان
ہاں مگر یہ فارسی ترکیب میں ناروا
ملاحظہ کیجئے دوسرے شعر میں ”یعنی“ کی ”ی“ ساقط ہے۔ اب ظہیر صاحب بتائیں کہ کیا وہ داغ پر بھی اعتراض کریں گے۔
اب آیئے تقابل ردیفین کے موضوع پر، اس ضمن میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ شاعر کی جانب سے اپنے کلام پر نظرثانی نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات اس قسم کا عیب باقی رہ جاتا ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس پر بغلیں بجائی جائیں۔ اساتذہ کے کلام سے اس طرح کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مگر اختصار کے ساتھ مندرجہ ذیل اشعار حاضر ہیں۔
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
نہنگ و ازہاد و شیر نر مارا تو کیا مارا
(ذوق)
تجھے نسبت جو دیتے ہیں شرار و برق و شعلہ سے
تسلی کرتے ہیں ناچار شاعر ان مثالوں سے
(میر تقی میر)
لاکھوں جتن کیے ہیں، مر مر کے ہم جئےں ہیں
کیا کہیے کیسی کیسی کڑیاں اٹھائیاں ہیں
یہ کیا کہتے ہو فانی سے کہ تیری موت آئی ہے
تم اس ناکام کے دل سے تو پوچھو زندگی کیا ہے
عزیزِ خاطرِ فطرت ہے، جانِ عبرت ہے
ہر ایک ذرّہ جو اس عالمِ غبار میں ہے
(فانی بدایونی)
اب رہا معنوی اعتبار سے اعلیٰ حضرت کے ان شعار کے قابل گرفت ہونے اور حصارِ نعت میں آنے کا معاملہ تو میں یہ عرض کردوں کہ میں عالم دین نہیں اس لیے اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ تاہم مجھے قوی اُمید ہے کہ حضرت مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی صاحب اس پر ضرور خامہ فرسائی کریں گے اور ظہیر غازی پوری صاحب کے افلاسِ علم کو ظاہر کردیں گے۔
فقط۔ والسلام              حافظ عبدالغفار حافظ“
حافظ کا دوسرا، مگر منفرد رنگ لئے خط بھی دیکھتے چلئے۔
21-08-2003
محترم صبیح رحمانی صاحب!
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ!
”نعت رنگ“ کا پندرہواں شمارہ نظر نواز ہوا۔ اس مرتبہ بھی پروف کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ جو کام ایک ادارہ کو کرنا چاہئے وہ آپ تن تنہا انجام دے رہے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ ”نعت رنگ“ کا ہر شمارہ مستقبل کے مورخ کے لیے قیمتی حوالہ ثابت ہوگا۔ لہٰذا اس سلسلہ میں کوئی ایسا ٹھوس قدم اٹھایئے کہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب کے صدقہ میں آپ کو بحسن و خوبی خدمت لوح و قلم انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
محترم مولانا کوکب نورانی صاحب کا خط حسب معمول طویل اور معلومات افزا ہے۔ موصوف جس طرح حقائق کا دفاع کررہے ہیں وہ لائق تحسین ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جن لوگوں سے جواب نہیں بن پڑتا وہ مسلکی اجارہ داری کا الزام لگادیتے ہیں۔ معلوم نہیں ان لوگوں کے نزدیک ناموسِ علماءکی زیادہ اہمیت ہے یا ناموسِ رسالت کی ۔ ایک سلجھے ہوئے آدمی کے لیے ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ حقائق تسلیم کر کے اپنے رویہ میں تبدیلی پیدا کرے۔ مگر یہاں معاملہ برعکس ہے اور بیشتر حضرات مخالفت برائے مخالفت پر کمربستہ نظر آتے ہیں۔ بس دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں حقائق تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
زیرنظر شمارہ کے مندرجات میں جو تسامحات نظر آئے ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
پروفیسر محمد اقبال جاوید صاحب کے مضمون میں صفحہ نمبر 36 پر زکی کیفی صاحب کے اشعار میں مصرع ”امنِ شرف و نام کی بکھری ہوئی تھی دھجیاں“ بحر سے خاج ہے کیو ں کہ لفظ ”شرف“ میں ”ر“ متحرک ہوتی ہے جبکہ مصرع میں ”ر“ پرسکون ہے۔
پروفیسر محمد اکرم رضا صاحب نے اپنے مضمون میں صفحہ نمبر 93 پر صابر براری صاحب کے دو اشعار درج کیے ہیں۔ ان میں پہلے شعر کا پہلا مصرع لفظ ”الم نشرح“ میں ”ح“ ساقط ہونے کی وجہ سے بحر سے خارج ہوگیا ہے۔ اس مضمون میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کے قطعہ میں دوسرا مصرع غلط کمپوز ہوگیا ہے۔ صحیح مصرع یوں ہے ”من وجھک المنیر لقد نور القمر“۔ پروفیسر صاحب موصوف نے صفحہ نمبر 75 پر اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ کے سلام کے اشعار کی تعداد ”قریباً ایک سو ستر“ بتائی ہے۔ اسی طرح عاصی کرنالی صاحب نے اپنے مضمون میں یہ تعداد 168 لکھی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس شہرئہ آفاق سلام میں پورے 171 اشعار ہیں۔ (نہ کم نہ زیادہ)۔ صفحہ نمبر 80 پر ضیاءالقادری مرحوم کے تیسرے شعر کا پہلا مصرع بھی غلط کمپوز ہوا ہے۔
صفحہ نمبر 177 پر ڈاکٹر محمد اسحق قریشی صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے طبیب حاذق کی طرح صحیح نباضی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جو تجویز پیش کی ہے وہ قابل قدر ہے۔
پروفیسر شفقت رضوی صاحب نے رسالہ ”شام و سحر“ کے نعت نمبروں کا تجزیاتی اور تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ ان کے مضمون میں صفحہ نمبر 283 پر علامہ اقبال کے شعر کا دوسرا مصرع غلط ہے۔ اصل مصرع یوں ہے ”بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔“
صفحہ نمبر 369 پر صہبا اختر صاحب کی نعتیہ نظم ہے۔ اس کے پانچویں بند کے دوسرے مصرع میں انہوں نے ”المزمل“ اور ”المدثر“ کو غلط طور پر باندھا ہے۔ المزمل میں ”ز“ پر اور المدثر میں ”د“پر تشدید ہونی چاہیے۔
صفحہ نمبر 375 پر سید محمد طلحہ برق صاحب کی نعت میں ساتویں شعر کا دوسرا مصرع ہے: ”تمہاری حاضری ناظری جب کہ عطائی ہے“لفظ ”کہ“ تقطیع میں ایک حرفی شمار ہوتا ہے مگر یہاں دو حرفی استعمال ہونے کی وجہ سے مصرع بحر سے خارج ہوگیا ہے۔
صفحہ نمبر 376 پر سید شمیم احمد گوہر صاحب کی نعت ہے۔ اس کے پانچویں شعر کا دوسرا مصرع ہے ”قرآ ن کو دیکھا گویا ہے دیدار آپ کا“۔ یہاں ”دیکھا“ کی جگہ ”دیکھنا“ چاہیے تھا۔
صفحہ نمبر 378 پر سید ریاض حسین زیدی صاحب کا کلام ہے۔ اس میں دوسرا شعر ہے:
نگاہِ دل سے دیکھو راہ ان کی
قسم ہے یہ خدا کی رہ گزر ہے
یہاں ”خدا کی رہ گزر“ والی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس نعت کے چوتھے شعر کا دوسرا مصرع ہے ، ”مری کعبوں کے کعبہ پر نظر ہے“ یہاں کعبہ کی جمع کا استعمال میرے خیال میں شعری طورپر نامناسب ہے۔
صفحہ نمبر 381 پر سید نظیر حسین عابدی صاحب کی نعت ہے۔ اس کے دوسرے شعر کا مصرع ثانی بحر سے خارج ہے کیوں کہ لفظ ”نہ“ تقطیع میں ایک حرفی شمار ہوتا ہے لیکن انہوں نے دو حرفی استعمال کیا ہے۔ چھٹے شعر میں ”وحی“ کا تلفظ غلط ہے۔ اس لفظ میں حائے حطی پر جزم ہوتا ہے۔ مقطع کے پہلے مصرع میں ”میرﺅی“ کی جگہ ”مری‘ ہونا چاہیے مگر یہ کمپوزنگ کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیوں کہ اس قسم کی غلطیاں اس شمارے میں بہت ہیں۔ مقطع کے دوسرے مصرع میں ”نظیر عابدی“ کی ”ع“ ساقط ہے۔
صفحہ نمبر 385 پر جمال نقوی صاحب نے چھٹے شعر میں لفظ ”قرآن“ فعول کے وزن پر باندھا ہے جب کہ مفعول کے وزن پر ہونا چاہیے۔
صفحہ نمبر 386 پر افضال احمد انور صاحب نے دوسرے شعر کے دوسرے مصرع میں قافیہ”مدح کناں“ استعمال کیا ہے جو کہ جمع ہے جب کہ یہاں واحد کا تقاضا تھا۔
صفحہ نمبر 389 پر مقصود احمد تبسم صاحب کا کلام ہے۔ انہوں نے بالکل نئی زمین تراشی ہے جو مجھے بہت پسند آئی لیکن نویں شعر میں انہوں نے لفظ ”زیادہ“ فعلن کے وزن پر باندھا ہے جو کہ غلط ہے۔ اس کی وجہ سے مصرع خارج ازبحر ہوگیا۔ یہ لفظ فعولن کے وزن پر ہونا چاہئے۔
صفحہ نمبر 392 پر شاہد نعیم صاحب کے مقطع میں ایک سقم ہے۔ دوسرے مصرع میں ”مرے دل میں“ کی جگہ ”اس کے دل میں“ ہونا چاہیے۔ یہ مصرع یوں ہوسکتا ہے۔ ”اس کے دل میں کردیے روشن محبت کے چراغ“۔
ڈاکٹر شمیم احمد گوہر صاحب اپنے خط میں اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ کے مصرع ”اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے“ کے متعلق فرماتے ہیں:
”یہ پورا مصرع ہی غلط نقل کیا گیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس بے بحر مصرع کا وزن تک بتاتے ہوئے اس کی تقطیع بھی کردی گئی۔ مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن۔ حالاں کہ مصرع یوں ہونا چاہیے تھا۔ ”اے بے کسوں کے آقا اب ہے تری دہائی“۔اس کی بحر مضارع مثمن اخرب کے تحت مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن ہے اور اول مثمن مشکول کے تحت فعلات فاعلاتن فعلات فاعلاتن ہے۔“
سبحان اللہ، کیا کہنے، قربان جایئے اس عروض دانی کے۔ محترم گوہر صاحب نے جو دو بحریں رقم فرمائی ہیں، ان میں مو¿خر الذکر بحر کا تو اعلیٰ حضرت کے مصرع سے کوئی تعلق بنتا ہی نہیں۔رہی اول الذکر بحر تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اعلیٰ حضرت کی یہ نعت مفعول مفاعیلن مفعول مفاعلین کے وزن پر ہی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ مذکورہ مصرع کا پہلا ٹکڑا ذوالبحرین ہونے کی وجہ سے مفعول فاعلاتن کے وزن پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ مزید تسلی کے لیے ”نعت رنگ“ شمارہ نمبر 12 میں صفحہ نمبر 137پر ڈاکٹر صابر سنبھلی صاحب کا مضمون ”اشعارِ نعت اعتراضات کی حقیقت“ اور راقم الحروف کے خط کے مندرجات کا مطالعہ فرمائیں۔ میں نے اپنے مذکورہ خط میں میر تقی میر اور فانی بدایونی کے اس قسم کے اشعار بطور حوالے درج کیے ہیں۔
صفحہ نمبر 478 پر احمد صغیر صدیقی صاحب اعلیٰ حضرت کا ایک شعر اور 3 متفرق مصرعے لکھ کر فرماتے ہیں، ”دی ہوئی مثالیں شعریت کی صفت کو اجاگر کرنے والی نہیں بلکہ مجروح کرنے والی ہیں۔“ صدیقی صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ ان میں شعریت کی کون سی صفت مجروح ہوئی۔
صفحہ نمبر 480 پر محترم پروفیسر قیصر نجفی صاحب نے میرتقی میر سے منسوب ایک روایت کا ذکر کیا ہے مگر اس کی حیثیت من گھڑت افسانے سے زیادہ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خدائے سخن کا مصرع بحر میں ہے اور ”خیال“ کی ”ی“ گرنے کا خیال ہی دل سے نکال دینا چاہئے بلکہ اس کی جگہ ”ہی“کی ”ی“ گرائیں میرکی یہ غزل جس بحر میں ہے اس کے ارکان مندرجہ ذیل ہیں:
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع/ فاع
اس بحر میں زحافات بہت ہیں جن کے استعمال کے بعد شعر کی تقطیع اس طرح ہوگی:
فاع
عشق
فعول برے ہی
فعول خیال
فعولن
پڑا ہے
فاع
چین
فعولن
گیاآ
فاع
رام
فعل
گیا
فعلن
دل کا
فعلن
جانا
فاع
ٹھہر
فعولن
گیا ہے
فاع
صبح
فعولن
گیا یا
فاع
شام
فعل
گیا
پروفیسر نجفی صاحب نے صفحہ نمبر 482 پر لفظ ”آذر“ کے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کے متعلق عرض ہے کہ ”آذر“ (”ذ“ کے ساتھ“) کے معنی چنگاری یا آگ کے ہیں جب کہ لفظ ”آزر“ (”ز“ کے سات) اسم معرفہ ہے اور یہ وہی تاریخی کردار ہے جس کا ذکر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ آتا ہے۔ ملاحظہ ہو، قرآن مجید کا ساتواں پارہ (سورئہ انعام کی آیت نمبر 75)
فقط ۔والسلام____________________________حافظ عبدالغفار حافظ
اور اب ایک خط جو ادب کے پورے ماحول کو عکس بند کررہاہے اور زبانِ خاص سے بول رہا ہے کہ منفرد نعت گو جب ادبی منظرنامے کو دیکھتا ہے تو کیا سوچتا ہے اور وہ کیا چاہتا ہے، کس سے چاہتا ہے، ان سے جو اس چاہ اورچاہت کو سمجھ بھی سکے ہیں اور طلبِ ادب اور استحسان نعت کا حق، مقدور بھر ادا بھی کرسکتے ہیں…. جی ہاں یہ خط نابغہ روزگار ہستی عہد موجود کے طرح دار طرز آشنا نعت گو حضرت حفیظ تائب کے قلم سے بکھرنے والے موتی ہیں۔
حفیظ تائب (لاہور)_______________________14 اکتوبر 1995ئ
برادرِ عزیز صبیح رحمانی صاحب!____________________السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ!
گزشتہ اپریل میں، جب میں حضرت حسان نعت ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے لیے کراچی پہنچا تو احباب نے بے پایاں محبتوں سے نوازا، لیکن آپ کی کمی پھر بھی محسوس ہوئی۔ اگرچہ یہ مسرت بھی کیا کم تھی کہ آپ کو حج و زیاراتِ حرمین الشریفین کے ارمان نکالنے کا موقع نصیب ہوا تھا اور آپ ان دنوں شہرِ محبوب …. مدینہ مکرمہ میں مقیم تھے…. ایوارڈز تقریب سے فارغ ہو کر جب ہم لوگ بھائی وسیم بیگ کے گھر پہنچے تو جناب غوث میاں نے جریدئہ ”نعت رنگ“ عطا فرمایا۔ میں اس شاہکار حسن و معنویت پر ایک نظر ڈال کر حیران رہ گیا اور کافی دیر تک آپ کو یاد کر کے دعائیں دیتا رہا۔ جملہ احباب بھی ہم نوا تھے۔ پھر ہم جہاں جہاں گئے وہاں وہاں آپ اور ”نعت رنگ“ کا ذکر خیر ہوتارہا۔
لاہور آکر عوارض و مسائل میں گھرا رہا اور مدت تک اس شمارئہ خاص کا مطالعہ نہ کرسکا۔ اسی لیے پہلے آپ کو اس کے بارے میں، خط نہ لکھ سکا۔
”نعت رنگ“ کا شمارئہ اوّل حسنِ انتخاب و ترتیب کا رفیع و وقیع جریدہ بن کر سامنے آیا ہے۔ ابتدائیہ میں بہت عمدہ و بلیغ انداز میں پیش کیے گئے مقاصد حاصل کرنے میں آپ کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔
”اجمال“ میں آنے والی سحر انصاری اور شبنم رومانی کی حمدیہ و نعتیہ نظمیں نہایت خوب ہیں۔سعید بدر کا مضمون ”نعت کیا ہے“ اس حصے میں آنے کی وجہ پوری طرح سمجھ میں نہیں آئی۔ گل چیدہ کے عنوان سے نمائندہ شعرا کی نعتوں کا اچھا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ منظومات کا حصہ الگ ہی رہتا تو بہتر تھا۔ آئندہ کوشش کیجیے کہ اس حصے میں تازہ نعتیں آئیں۔
تحقیق کے باب میں تمام تر مضامین بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ راجا رشید محمود اور غوث میاں نے ایک ہی موضوع پر کام کر کے ایک دوسرے کے کام کوتکمیل تک پہنچایا ہے۔ دونوں حضرات کی عرق ریزی قابل تحسین ہے۔ ان کی محنت سے پاکستان میں چھپے ہوئے تمام تر نعتیہ گل دستوں کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ راجا رشید محمود نے البتہ سارے مجموعے دیکھ کر ان کے کوائف جمع کیے ہیں اور یوں ان کی فہرست ببلیو گرافی کے سائنسی اصولوں کو پورا کرتی نظر آتی ہے، مگر انہوں نے اپنے کام کو پاکستان تک محدود رکھاہے اور قیام پاکستان سے پہلے چھپنے والے انتخابوں پر کام کرنے میں بنیادی وقت کا ذکر بھی کیا ہے پھر بھی ہم ان سے اس ہفت خواں کو بھی سر کرلینے کی امیدرکھتے ہیں، اگرچہ بھارت میں موجود نعت کے محقق اس کام کو نسبتاًآسانی سے کرسکتے ہیں۔ غوث میاں اور شہزاد احمد سے بھی اس کام کو تکمیل تک پہنچانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ غوث میاں نے پہلے بھی قیام پاکستان سے پہلے چھپنے والے بہت سے نعتیہ گل دستوں کا ذکر تو کیا ہے۔ انہوں نے اس دور کے اہم ترین انتخاب ”بوستانِ نعت“ کو دیکھ نہ سکنے کا اعتراف بھی کیا ہے، جب کہ راجا رشید محمود نے بجا کہا ہے کہ ”اس انتخاب کی اہمیت اور افادیت آج بھی مسلّم ہے“۔ بھائی غوث میاں کے ریکارڈ کے لیے عرض گزار ہوں کہ ”بوستانِ نعت“ کے مرتب احمد علی سیف کلانوری خود بھی نعت نگار تھے۔ ان کا انتخاب 6″x9″ سائز کے 272 صفحات پر پھیلا ہوا ہے اور عمدہ کاغذ پر اشاعت پذیر ہوا تھا۔ یہ چھپا تو ”فیروز پرنٹنگ ورکس 119 سرکلر روڈ لاہور“ میں تھا، لیکن اس کی اشاعت کا اہتمام نواب صادق پنجم شہریار بہاولپور نے کیا تھا۔ مرتب نے اس بات کا ذکر اپنے دو صفحات پر مشتمل مقدمہ بعنوان ”وجہِ تالیف“ میں کیا ہے اور یہ تحریر انہوں نے 17 ذی قعدہ 1349ہجری کے دن لکھی۔ اس مجموعہ میں ہر اہم شاعر کی نعتیں ردیف وار جمع کی گئی ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی نے اپنے مضمون ”پاکستان میں نعت نمبروں کی روایت“ (مطبوعہ ”اوج“ نعت نمبر) کو ”چندمزید نعت نمبر“ لکھ کر مکمل کردیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا جو وہ اس مضمون کی ابتداءمیں اپنے پہلے مضمون کا خلاصہ دے دیتے۔
جاذب قریشی اورا ٓپ کا مضمون تنقید کے باب میں چلے جاتے تو شاید زیادہ مناسب ہوتا کہ تحسین و جائزہ بھی تنقید کا حصہ ہوتا ہے۔
نعت میں محتاط رویوں کی ضرورت کو ہمیشہ محسوس کیا گیا، لیکن دورِ موجودمیں یہ ضرورت کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے کہ پہلے عام طور پر وہ لوگ نعت کہتے تھے جن کا فطری رجحان اس موضوع کی طرف ہوتا تھا اور وہ دینی تعلیم رکھتے تھے۔ لیکن اب پاکستان میں ہر شاعر نعت کہنے کی سعادت حاصل کررہا ہے اور نعت کے موضوعات میں بہت وسعت آرہی ہے۔ اس لیے نعت میں احتیاط کے تقاضوں کو سامنے لانے کی ضرورت بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ غالباً یہی محسوس کرتے ہوئے رشید وارثی اور عزیز احسن نے اس کام کے لیے بڑے بھرپور انداز میں قلم اٹھایا ہے۔ دونوں حضرات قرآن پاک اور حدیث مبارکہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اورا ن کا ادبیات کا مطالعہ بھی وافر ہے، پھر انہوں نے پہلے ہونے والے احتساب سے بہتر انداز اختیار کیا ہے۔ رشید وارثی نے ذم کے پہلو رکھنے والے اشعار کی نشاندہی کی، لیکن شعرائے کرام کے نام نہیں دیے۔ یہ روش اس اعتبار سے بہتر ہے کہ مقصود نعت نگاروں کی تحقیر نہیں، بلکہ ذم کے پہلوﺅں کو سامنے لانا ہے تاکہ نعت معیاری بن سکے۔عزیز احسن نے البتہ پورے اعتماد اور جرا¿ت سے شعرائے کرام کے نام لے کر بے احتیاطیوں کی نشاندہی کی ہے، لیکن انہوں نے اپنا زاویہ¿ نظر یہ بتایا ہے:
محبتیں بھی رہیں دل کو ٹھیس بھی نہ لگے
کسی کے سامنے اس طرح آئنہ رکھیے
اشتہارات سے پتا چلا ہے کہ یہ دونوں حضرات اور ادیب رائے پوری ان موضوعات پر کتابیں تیار کرلیتے ہیں۔ اللہ انہیں مزید فکری بالیدگی اور توازن سے نوازے۔
”تنقید نعت“ تخلیق نعت سے بھی کہیںمشکل کام ہے، لہٰذا اس کام کو وسعت دینے والے احباب سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ نعت کا فنی محاسبہ جس طرح چاہیں کریں، لیکن اس کے فکری پہلوﺅںپر قلم اٹھاتے ہوئے ہر نکتہ¿ نظر و زاویہ¿ فکر پر نگاہ رکھیں اور ہر پہلو کا بہ نظرِ عمیق جائزہ لے کر بات کریں۔ اختلافی معاملات میں احباب سے مشورہ کرلینے میں کچھ حرج نہیں ہوتابلکہ باہمی تبادلہ¿ خیال سے کوئی نہ کوئی اوررُخ بھی سامنے آسکتا ہے۔ یہ دردمندانہ التماس اس لیے کررہا ہوں کہ نعت کا احترام بہرصورت قائم رہنا چاہیے اور اس سے مختلف دینی مسالک کو قریب لانے کی سعی بھی ہونا چاہیے۔ یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو بعد میں تنقید پر تنقید لکھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو اس ضمن میں آپ کو اپنا مدیرانہ استحقاق بھی بروئے کار لانا ہوگا۔
”فکر وفن“ میں مضامین کا انتخاب شان دار اور جان دار ہے۔ مطالعہ مجموعہ ہائے نعت کا یہ سلسلہ مفید ثابت ہوگا۔
”نعت رنگ“شمارہ اوّل کے مطالعہ کے بعد ضروری لگا ہے کہ نعت میں تحقیق، تدوین، تنقید اورتخلیق کا کام کرنے والے صاحب نظر لوگوں کو یک جا کر کے ”مسائلِ نعت“ پر کوئی سمپوزیم ہو اور اس کی کارروائی ”نعت رنگ“ کے کسی شمارے کا حصہ بنے۔ سمپوزیم کا ایجنڈا طے کر کے مختلف مسائل پر ناقدین سے اشاراتی بلکہ کلیدی مضامین لکھوائے جائیں اور ان پر بحث کے بعد کچھ نتائج مرتب ہوں۔ اس منصوبے پر اپنے رفقائے کار اور دوسرے اسکالرز سے مشوروں کے بعد،اگر تجویز اچھی لگے تو اسے عملی جامہ پہنانے کی اپنی سی سعی کرنا چاہئے۔
آپ کی محبت اور ”شوق نے بات کیا بڑھائی ہے“، ورنہ ایک کم علم، کوتاہ قلم اور بیماری کے تھکائے آدمی سے کیا توقع ہوسکتی ہے…. کسی مدیرکے نام یہ میرا (غالباً) پہلا خط ہے اور رواروی میں جانے کیا کچھ لکھ گیا ہوں۔ اس کی اشاعت نہ ہوتو بہتر ہے کہ یہ صرف آپ کے لیے ہے۔
آپ کو بہت اچھے ساتھی، معاونت اور مشاورت میسر ہیں اور نہایت اہم ادیب و شاعر آپ سے تعاون کررہے ہیں۔ یہ آپ کی محبت ا ور بڑوں کی ادب کی وجہ سے ہے اور بہت بڑی خوش بختی۔ اللہ کریم آپ کو ذوق و شوق اور توفیقات میں اضافہ فرمائیں۔ جملہ احباب، متعلقین او ر اپنے اہل خانہ کو سلام اور دعائیں پہنچانے کی زحمت اٹھائیں۔ خدا کرے آپ سبھی عافیت سے ہوں۔
مخلص
حفیظ تائب
مشتے از خروارے کے مصداق نعت نامے کے چند نامے آپ کے سامنے آسکے۔ ان سے جو کلیہ سامنے آرہا ہے وہ یہی ہے کہ یہ خط نہ تو محض ذاتی ہیں ، نہ صفاتی، نہ محاکاتی، نہ جمالیاتی بلکہ ان کا دائرہ کار کائناتی، ہمہ جہتی اور ہم صفاتی ہے۔ اصل میں تو ان کا مقصود فن نعت گوئی اور صنفِ نعت گوئی کے ارتقاءکا پتہ لگانا ہے، مگر موضوعات کے اعتبار سے یہ خطوط ایک نظریہ کے داعی بن گئے ہیں اور جس طرح ابتداءمیں سوال اٹھایا گیا تھا کہ حسن کا ادراک ایک مخصوص طاقت کے ذریعے ہوتا ہے، تو اس قضیہ کو کامل سچ بنانے کے لئے ان خطوط میں غیر محسوس طریقے سے اس حسن کی تلاش کی گئی ہے جو حسن ازل ہے اور پھرا س کی تفہیم کی غرض سے جس مخصوص طاقت یا قوت کو سہارا یا وسیلہ بنایا گیا ہے، وہ ذات والا صفات جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔ اور یہ کام سکہ بند ناقدوں کے شانہ بہ شانہ ان لوگوں نے بھی کیا ہے جنہیں اس طرح کے گروہ بند ناقد ہونے کا نہ دعویٰ ہے نہ یارا…. وہ تو اپنے ذوقِ سلیم کے سہارے ایمان کے رستے چل پڑے ہیں اور ان تحریروں کو اپنا زادِ راہ بنالیا ہے۔ اس قبیل کو کسی گروہ سے ہم رشتہ نہ سمجھا جائے تو بہتر ہے ورنہ نقادوں کا ایک اور گروہ ہے جو تاریخی پہلوﺅں کو پیش نظر رکھتا ہے۔ بقول پروفیسر احتشام حسین ”بعض جرمن نقادوں نے اس تصور کوا یک حد تک پہنچا دیا ہے اور ”روحِ عصر“ ہی کو سب کچھ قرار دیا ہے۔ کبھی کبھی اس نقطہ نظر سے د یکھنے والے ادبی کارناموںکا اچھا تجزیہ کرلیتے ہیں لیکن یہ نقطہ نظر خود تاریخی حقائق کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہتا ہے اور سماجی ارتقا کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کردیتا ہے۔“
پروفیسر احتشام حسین کے اس حوالے سے یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ زندگی کو سمجھنے کے لئے فلسفہ¿ حیات کو جاننا ضروری ہے جبکہ ہر قوم کافلسفہ¿ حیات بڑی حدتک واضح ہوتا ہے مگر غیرمبدّل نہیں ہوتا۔ یہ نظریہ وقت کے تناﺅ کے ساتھ سکڑ تا اور اس کے پھیلاﺅ کے ساتھ پھیلتا جاتا ہے مگرمسلمان قوم بلکہ ملّت اسلامیہ کا نظریہ¿ حیات کسی عمرانی معاہدے پر استوار نہیں بلکہ ٹھوس اسلامی تعلیمات سے ہم رشتہ ہے۔ خطبہ¿ آخر کے موقع پر حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعلان منشورِ انسانیت ہے۔ جس میں واضح طور پر اپنے بعد قرآن اور سنت کا چھوڑ ے جانا اور ہر مسلمان کا رہتی دنیا تک اُسے حرزجاں بنالینا ہی ملّت اسلامیہ کا فلسفہ زندگی اور نظریہ حیات ہے۔ اس بات کو سمجھنا او ر پھر لوگوں کو سمجھانا بھی عبادت ہے…. جبکہ یہ بات تدریسی اعتبار سے کتب کے ذریعے، اساتذہ کے ذریعے اور رشد و ہدایت میں شریعت و طریقت کے شارحین کے ذریعے عام کی جاسکتی ہے، مگر اس کی تعلیم کا ایک اور موثر ذریعہ نعت گوئی اور نعت فہمی ہے۔ جس کے نصاب میں حضور کی تعلیمات سے لے کر آپ کے فضائل، مشاغل، افکار و کردار سب ہی آجاتے ہیں اور آتے بھی اس قدر دلنشیں انداز اور مترنم صورت میں، صوتی حسن اور لسانی تاثیر کے ساتھ ہیں کہ دل سے نکلنے والی بات سننے والے کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے…. یہ انداز اگر وجدانی خوبی سے اختیار کیا جائے تو وصف بیاں دوبالا ہوجاتا ہے ورنہ نہیں…. اب سوال یہ ہے کہ وصف بیاں کماحقہ ادا ہوگیا یا نہیں، یہ جانچنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ ایک سامعین کی وارفتگی، سرشاری، بے خودی اور تسکینِ روح و قلب اور دوسری کسوٹی انتقادی زاویے پر ان کا پورا اترنا ہے۔ کارِ شیشہ گری کے اس نازک کام کو جس نزاکت اور نفاست سے نعت رنگ انجام دے رہا ہے، اس کی دلیل نعت نامے ہیں اور یہی نعت نامے ہیں جن کے سہارے اس شیشہ گری کو فہم و ادراک کے ذریعے پوری کائنات کو تسخیر جاسکتا ہے…. پوری کائنات کا سمجھنا دراصل حسن ازل کا سمجھنا ہے اور اس کے سمجھنے کے لئے جس مخصوص طاقت کو وسیلہ بنایا جاتا ہے، وہی تو محبوبِ داور محشر ہیں، جو روزِ جزا شفاعت کا سایہ ہم سب پر ڈالیں گے تاکہ ہمارے جذبہ¿ محبت اور عشق کو شرف قبولیت بخش کر حسن ازل کا دیدار کرادیں۔ گویا کہ:
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
عجب کیا اگر رحم فرمائے ہم پر
خدائے محمد، برائے محمد

Related posts

Leave a Comment