زبان کے تیور … ڈاکٹر سلیم اختر

وقت کے بہاﺅ کو بالعموم دریا سے تشبیہ دی جاتی ہے واقعات کے لہر در لہر سلسلوں کی بِنا پر ، وقت غیر مرئی ہے اس لئے کہہ نہیں سکتے کہ یہ تشبیہ مناسب ہے یا نہیں لیکن زبان کے آغاز اور اس کے تشکیلی مراحل کے بارے میں دریا کی تشبیہہ کارآمد محسوس ہوتی ہے۔ ہمالیہ کے سلسلہ کوہ میں ایک گلیشیر گنگا کا منبع ہے۔ گنگا کی مناسبت سے اس گلیشیر کو ”گنگوتری“ کا نام دیا گیا ہے۔ صاف شفاف،موتی سادمکتا پانی، کوہستانی سفر ختم کرکے جب میدان میں داخل ہوتا ہے تو اساطیر کے بموجب شیو کی جٹاﺅں سے نکلنے سے پوتر دریا سب سے آلودہ دریا میں تبدیل ہوجاتاہے۔ جلے ہوئے مُردوں کی راکھ اس میں ڈالی جاتی ، کھانے پینے کی اشیا، مٹھائیاں، پھل پھول بطورِ نذر اس میں پھینکے جاتے ہیں۔ مٹی کے جلتے ہوئے دیئے اس میں تیرتے ہیں، حتیٰ کہ جو غریب شمشان میں جلایا نہیں جاسکتا دریا برد ہوتاہے۔ لیکن اس کے باوجود کہ رام تیری گنگا میلی وہ پاپیوں کے پاپ دھوتی ہے، یوں لاتعداد گندے مرد و زن اس میں نہا کر اپنے جسم کی میل، پسینہ، بُو اس میں شامل کرنے کے بعد اس میں سے پوتر ہوکر نکلتے ہیں۔
زبان کا آغاز بھی اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ جب زبان محدود ذخیرہء الفاظ سے جنم لیتی ہے تو سادہ و سلیس ہوتی ہے۔ اظہار واضح اور دوٹوک، تشبیہیں برائے نام، استعارہ ناپید، صنعتیں معدوم۔ اسلوب سادہ ترین، جمالیات ناآشنا۔ جس طرح دریا میں ندی نالے شامل ہوکر اس کے پانی میں اضافہ اور بہاﺅ میں تیزی کا باعث بنتے ہیں، اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زبان میں بھی اردگرد کی زبانوں اور بولیوں کے الفاظ شامل ہوکر ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرتے جاتے ہیں بلکہ اس کا بھی امکان ہے کہ دیگر زبانوں کے الفاظ کی کثرت کے باعث زبان اپنی اصل صورت گنوادے، یوں کہ اصل صورت بھی نہ پہچانی جاسکے۔ اس وقوعہ کا مشاہدہ آج بھی ممکن ہے، گاﺅں کی پنجابی اور شہر کی پنجابی میں الفاظ کے استعمال سے۔ شہر کی پنجابی میں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی کا استعمال عام ہے جبکہ دیہاتی ایسا نہ کرے گا جب ورڈز ورتھ نے یہ کہا کہ شاعری گاﺅں والوں کی زبان میں ہونی چاہئے تو اس سوچ کے پیچھے بھی یہی تصور کارفرما تھا۔ دوسری زبانوں کی آمیزش سے زبان اپنی اصل سے دور ہوجاتی ہے۔ شہر کے تعلیم یافتہ افراد کے نئے نئے الفاظ شامل کرنے کے باعث زبان اپنی اصل سے دور ہوجاتی ہے۔ شہر کے تعلیم یافتہ افراد کے نئے نئے الفاظ شامل کرنے کے باعث زبان اپنی اساس گنواکر کچھ کی کچھ بن جاتی ہے۔ اہلِ زبان کے زمانہ میں یہ باور کیا جاتا تھا کہ عورتیں کیونکہ گھر سے باہر جاکر دوسری زبان والوں سے بات چیت کرکے ان کی زبانوں کے الفاظ اخذ نہیں کرتیں اس لئے ان کی زبان اصل کے قریب تر لہٰذا زیادہ تر ملاوٹ شدہ نہ ہوتی تھی۔ روایت ہے کہ جب انیس کے بعض الفاظ پر اعتراضات ہوئے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ہمارے گھر کی خواتین اس طرح بولتی ہیں۔ میرتقی میر کی زبان پر جب اہلِ لکھنو نے اعتراض کئے تو میر نے کہا کہ دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اسی طرح بولتے ہیں۔
جہاں تک تلفظ کا تعلق ہے تو لسانی تنوع کے حامل ہندوستان جیسے ملک میں تلفظ کا کوئی معیار طے کرنا ناممکن اور اسی لئے کارِ لاحاصل ہے۔ تلفظ فرد کے Vocal Cord (آلاتِ صوت) یعنی ہونٹوں، زبان، حلق اور تالو کی حرکات سے مشروط ہے جس کا کسی حد تک کسی نسل یا جغرافیہ اور عمومی لسانی صورتحال سے خاصا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اسی لئے مختلف نسلوں اور علاقوں کے افراد مختلف اصوات (حروف) کی ادائیگی سے قاصر ہوتے ہیں۔ جیسے ہندی بولنے والے خ کو کھ، غ کو گ سے بدل دیتے ہیں، یوں خوبصورت کھوبصورت، شرمیلی سرمیلی اور غالب گالب بن جاتا ہے۔ بنگالی ج کو ذ بولتے ہیںیوں جلیل ذلیل ہوجاتا ہے۔ حیدرآباد (دکن) والے ق کا خ بولتے ہیںوہاں قبر خبر بن جاتی ہے۔بحیثیت مجموعی ہم عربی لہجہ میں ق اور ع ادا کرنے کے اہل نہیں اسی لئے اقبال کو اک بال اور عربی کو اربی بنادیتے ہیں۔ اسی طرح ایرانی اور فرانسیسی T کوت بولتے ہیں جرمن میں D,T میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ عرب پ کو ب اور وکو ف بولتے ہیں۔ یہ نالائقی نہیں بلکہ صوتی مجبوری ہے۔
اس انداز کی مزید مثالیں بھی مل سکتی ہیں۔ انسانی حلق جن اصوات کی ادائیگی کا اہل ہوتا ہے وہ حروف کی شکل میں ظاہر کی جاتی ہیں۔ حروف تہجی اس امر کے مظہر ہیں کہ زبان میں ان اصوات کی ادائیگی ممکن ہے۔ اس سے یہ لسانی سبق ملتا ہے کہ ہرزبان کا لہجہ اور لحن اسی زبان کے لحاظ سے درست ہے لہٰذا زبانوں کا تقابل بے سود ہے۔ تلفظ، لہجہ اور لحن اضافی ہیں، مطلق نہیں، اس لئے کسی ایک زبان کو دوسری پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ اسی لئے تلفظ کا کوئی عالمی معیار بھی نہیں۔ زبانوں کی اصوات اور ان سے بننے والے حروف مقامی جغرافیائی اور عمرانی صورت حال کی مناسبت سے ہیں وہ صورت حال جو آلاتِ صوت سے مشروط ہے۔
آب حیات میں مولانا محمد حسین آزاد نے لکھا ہے کہ میر جب دہلی سے لکھنو¿ چلے تو ایک صاحب کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنا پڑا۔ اس شخص نے جب میر صاحب سے ہم کلام ہونے کی کوشش کی تومیر صاحب نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کردیا کہ میں تمہارے ساتھ بات کرکے اپنی زبان خراب نہیں کرنا چاہتا۔
زبان والوں میں ہمیشہ سے ایک ایسا طبقہ رہا ہے جو زبان کی طہارت پر اصرار کرتا رہاہے۔ یہ رویہ شدت اختیار کرتا ہے تو اُسی انتہا پسندانہ سوچ کو جنم دیتا ہے جس کے نتیجہ میں زبان سومنات میں تبدیل ہوجاتی ہے، لسانیات مندر قرار پاتی ہے۔ یوں زبان دان پجاری میں تبدیل ہوجاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زبان پر بندباندھ کر اس کے بہاﺅ کو روکنا ناممکن ہے اس لئے کہ یہ اصول فطرت کے خلاف ہے۔ جس طرح فطرت خودبخود لالہ کی حنابندی کرتی ہے، اسی طرح کسی بھی زبان کی نشوونما کے تشکیلی مراحل خود کار ہوتے ہیں۔ کسی بھی زبان کی نشوونما کو روکنے یا اس میں مزاحم ہونے کے نتیجہ میں زبان کا وہی حال ہوتا ہے جو جوہڑ یا تالاب کے بند پانی کا ہوتا ہے۔ سنسکرت کی مثال ہمارے سامنے ہے جو دیوبانی بنادیئے جانے کے بعد عوام سے یوں کٹی کہ سورگباش ہوگئی۔
لفظ اپنی شکتی رکھتا ہے جو اسے سرسوتی سے نہیں ملتی بلکہ اس کی باطنی قوت سے مشروط ہوتی ہے اور اس داخلی توانائی کو تقویت ملتی ہے اُسے استعمال کرنے والے عوام سے۔
زبان عوام پیدا کرتے ہیں، عوام بناتے اور سنوارتے ہیں، عوام اس میں تبدیلیاں لاتے ہیں اور عوام ہی اس کی موت کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے زبان اور عوام لازم و ملزوم ہیں۔ اُسے اس مثال سے سمجھئے کہ ایک سہانی صبح اگر تمام لوگ ایک زبان بولنے سے انکار کردیں تو وہ زبان صفحہء ہستی سے مٹ جائے گی۔
لفظ کا جینا مرنا افراد کے طرز عمل سے مشروط ہے۔ جب تک لفظ عوام کی زبان پر رہتا ہے وہ زندہ رہتاہے جیسے ہی زبان سے اترا متروک بلکہ مرحوم ہوگیا۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ہماری عام بول چال کا حصہ یہ الفاظ آج سے تقریباً چھ ہزار برس قدیم (اور مردہ) ”منڈاوی“ زبان کے ہیں: ”نانا، نانی،ماما، مامی، پھوپھا، پھوپھی، سالی ، مولسی (بمعنی دولہا) پیڑھی (بمعنی نسل)، نتھ، گہنا، آنچل، دُھسّہ، توڑا، ببول، بڑ، دھتورا، ککڑی، کریلا، نیم، پستہ، بھٹی، پیندا، آرا، ڈنڈا، برچھا، ڈھال، بوہنی، کھوجی، پٹڑی، دالان، پھاٹک، بھاڑا، چھیلا، چتر، دھندا، ڈھیلا، ڈھارس، گیرو، لاگ، متر، مورکھ، منڈی، ناٹا، اڑوس پڑوس، دھوم دھام، کھٹ پٹ (بحوالہ عین الحق فرید کوٹی، ”اردو زبان کی قدیم تاریخ“ ص 104)
رشید اختر ندوی مُنڈا کے بار ے میں یہ معلومات بہم پہنچاتے ہیں:
”ارض پاکستان کے سب سے پہلے آبادکار وہ سیاہ فام لوگ تھے جو برفانی عہد میں افریقہ اور ملیشیا سے یہاں پہنچے اور کسی ایک حصہ میں نہیں بلکہ پورے ملک میں پھیل گئے تھے۔ ارض پاکستان کی سب سے پہلی آبادیاں ان لوگوں کی تھیںجو کہ میری یا مُنڈا زبانیں بولتے تھے۔ اور جو انڈو چائنا نسل کے ایک گروہ مون گھمیر سے متعلق تھے۔“ (بحوالہ رشید اختر ندوی، ”ارض پاکستان کی تاریخ“ ص ۷۹- ۶۹)
مُنڈا لوگوں کی گنتی صرف 20 تک تھی جسے وہ کوڑی کہتے تھے۔ آج بھی پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے دیہات میں 20 کے لئے لفظ کوڑی مروج ہے۔ (بحوالہ خاطر غزنوی، ”اردو زبان کا ماخذ: ہندکو“ ص ۶۳)
اگر عوام زبان کو متروک (بلکہ مردہ) قرار دے سکتے ہیں تو عوام مردہ زبان کو حیاتِ نوبھی دے سکتے ہیں ۔ عبرانی مرحوم ہوچکی تھی یہ بن یہودہ تھا جس نے اُسے زندہ کرنے کا بیڑااُٹھایا۔ آغاز یوں کیا گیا کہ سب یہودی اپنے یورپین نام ترک کرکے عبرانی نام رکھ لیں۔ اس کے بعد عبرانی کی لغت مدون کی گئی اور ترقی کرتے کرتے اس سطح تک پہنچ گئی کہ جب ریاست اسرائیل قائم ہوئی تو کاروبارِ مملکت چلانے کے لئے عبرانی تیار تھی۔ جو اس وقت عوام اور حکومت کی زبان ہے ہمارے برعکس۔
زبان عمرانی زندگی کا ایسا وقوعہ ہے جو ہمیشہ زیرِ ساخت، زیرِ تعمیر اور زیرِ تغیر رہتاہے کہ زبان اور ثبات برعکس ہیں۔ زبان نے باہم انسانی رابطوں اور ان سے جنم لینے والی انسانی ضروریات کی بنا پر جنم لیا بوتل میں بند انسان کو زبان کی ضرورت نہیں کہ وہ سب سے منقطع زیست کررہا ہے جس دن بوتل سے باہر آیا اس دن اظہار، ترسیل اور ابلاغ کے مسائل پیدا ہوں گے۔ کیا کلام کروں کے مقابلہ میں کیسے کلام کروں، یہ مسئلہ زیادہ اہم ہوگا۔
زبان کثیرالمقاصد ہے اس کے سو انداز ہیں اور ہر انداز سو ڈھنگ کا حامل ہے۔ شاعرانہ اسلوب میں الفاظ کو پھولوں سے تشبیہہ دیں تو پھر زبان ایسے پھولوں کا گلدستہ جس کا ہر پھول گلشن بداماں ہے۔ اس ضمن میں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ پھول کی تازگی اور مہک اس کی عمر اور جغرافیائی حالات سے مشروط ہے جب کہ لفظ اپنی داخلی توانائی کا حامل ہوتا ہے۔ باطن میں خوابیدہ معانی کو قلم کار برآمد کرتا ہے۔ ایسے ہی جیسے مجسمہ ساز پتھر کے ٹکڑے میں سے شبیہہ برآمد کرتا ہے۔نامور مجسمہ ساز مائیکل اینجلو نے یہی کہا تھا کہ شبیہہ پتھر میں موجود ہوتی ہے میں تو صرف یہ کرتا ہوں کہ اُسے پتھر سے باہر نکال دیتا ہوں۔ مجسمہ ساز کی تشبیہہ کی مانند تیشہ¿ لفظ بھی یہی کردار ادا کرتا ہے۔ پیدائش کے وقت انسان فطرت کے عین مطابق اور اس لئے سادہ ترین صورت میں یعنی بے لباس پیدا ہوتا ہے اور پھر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ تہذیبی عوامل اور کلچر کے اثرات کے زیرِاثر وہ خود کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت بنانے کی سعی کرتا ہے۔ حقیقی(غسل) اور مصنوعی (میک اپ) طریقوں سے وہ خود کو خوش جمال بنانے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح زبان بھی آغاز کی سادگی، سلاست، فطری پن سے بتدریج دور ہوتی جاتی ہے۔ آغاز کی سادگی، فطری پن، سلاست،براہِ راست اور دوٹوک اندازِ اظہار کے مصنوعی طریقوں کی بالادستی کے سامنے بتدریج پسپائی اختیار کرتا جاتا ہے۔
زبان کے استعمال کی دو صورتیں ہیں جو اتنی عام اور واضح ہیں کہ بطورِ خاص ان کا نوٹس نہیں لیا جاتا یہ دو ہیں مکالمہ اور تخلیق۔ مکالمہ باہمی کلام کی اساس اور معاشرہ کے مختلف افراد کے درمیان رابطہ کا کردار ادا کرتا ہے۔مکالمہ میں اتنا ہی تنوع ملے گا جتنا کہ معاشرہ میں موجود ہوگا۔ اس میں اتنی ہی بوقلمونی ہوگی جتنی کہ خود زندگی میں۔ سادہ اور صاف زندگی میں مکالمہ بھی سادہ، صاف اور براہِ راست ہوگا۔ انتھروپولو جی ہمیں بتاتی ہے کہ غیر متمدن، کم ترقی یافتہ اور وحشی معاشروں کی زبان ( جسے بولی کہنا زیادہ مناسب ہوگا) کا ذخیرہء الفاظ مختصر اور محدود ہوتا ہے اور بالعموم لفظ واحد معنی کا حامل ہوتاہے جذبات احساسات اور حسیات کا براہِ راست اظہار ہوتاہے اس لئے وہ بھی بالواسطہ اسلوب میں دو ٹوک قسم کے الفاظ سے ہو پاتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے معاشرہ پیچیدگی اختیار کرتا جائے گا زبان بھی پیچیدگی اختیار کرتی جائے گی۔ یوں دو ٹوک الفاظ میں براہِ راست اظہار مشکل تر ہوتا جائے گا۔ زیادہ دور کی مثالوں کی ضرورت نہیں مدارات کے لئے آرائشی اور اسی لئے مصنوعی الفاظ سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایسے خیر مقدمی الفاظ جن کا میزبان کے جذبات سے کسی طرح کا بھی تعلق نہیں ہوتا، معاشرہ میں تہذیب و تمدن اور کلچر جتنی زیادہ پیچیدگیوں کے حامل ہوں گے آرائش کے لئے الفاظ بھی اسی مناسبت سے پیچیدگیاں اختیار کرتے جائیں گے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑرہے کہ خود معاشرہ کے تہذیب و تمدن اور کلچر میں زرِ خالص، کھوٹ اورملمع کا تناسب کتنا ہے۔ معاشرہ میںزرِ خالص، کھوٹ اور ملمع کی نسبت سے آرائشی اور تہذیبی الفاظ کا تناسب طے پائے گا۔ فطری اور حقیقی الفاظ کے مقابلہ میں جمالیاتی خوبیوں اور صوتی دلکشی کے باوجود بھی یہ ایک نوع کی لسانی آلودگی ہے مگر اس سے مفر بھی نہیں کہ یہ غیر حقیقی معاشرہ اور اس کے مصنوعی کلچر سے مشروط ہے۔
انسانی روابط اور ضرورت اور اہمیت نے زبان کی تشکیل کی اس لئے زبان افراد سے باہر نہیں جاسکتی۔ افراد جس نوع کی تمدنی، سیاسی، اور اقتصادی اور عمرانی صورتحال سے دوچار ہوں گے زبان اس کے اثرات اخذ کرے گی وہ جو کسی نے کہا تھا کہ انگریزی کاروبار کی زبان ہے جرمن فلسفہ کی اور فرانسیسی رومانس کی تو یہ لیبلنگ اسی باعث ممکن ہوسکی ہوگی۔ اس ضمن میں بائرن کا یہ مصرع بھی یاد آرہا ہے جو اس نے اطالوی کے بارے میں لکھا تھا:
"It flows like kisses from a female mouth.”
حروف اصوات کے باعث ہیں، یہی اصوات منظم اور مرتب کرکے موسیقی کے سُروں میں بھی تبدیل ہوجاتی ہیں۔ جیسے سا = آ، رے = ب، یہ تو ہوئی سادہ ترین مثال لیکن راگوں اور راگنیوں کی مختلف صورتوں میں سُر اور الفاظ کے تال میل سے ہر تان میں دیپک والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
الفاظ کی اصوات کی غنائی اہمیت اور یہی شاعری میں مترنم بحروں اور الفاظ کی حسنِ ترتیب کے باعث شاعری میں موزونیت پید اکرنے کا بھی باعث بنتی ہے۔
اس کے برعکس مثال سائنسی موضوعات کی تحریر کا اسلوب ہے۔ سائنس کا مقصد علمی حقائق و کوائف اور معلومات کا بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ اس لئے سائنسی زبان میں ہر لحاظ سے قطعیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر تخلیق تحریر یا شعر میں سے ایک سے زائد مفاہیم برآمد ہوں تو یہ اس کی خوبی ہوگی لیکن سائنسی تحریر میں یہ عیب ہوگا۔ اس لئے زبان قطعی ہونے کے عمل سے گزرتی ہوئی ایسی صورت اختیار کرلتی ہے جس میں فارمولے، اشارات (Signs) اور اعداد کلیدی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ زبان کا یہ روپ غیر تخلیقی مگر سو فیصد قطعی ابلاغ کا حامل ہوتا ہے۔
جہاں تک ایجادات، اختراعات، سائنسی معلومات، علمی نظریات اور مختلف تصورات سے وابستہ مخصوص اصطلاحات کا تعلق ہے تو یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ اگر اپنی اصل صورت میں یہ قبول کرلی جائیں تو زبان کے ذخیرہء الفاظ میں اضافہ کا موجب بنتی ہیں، لیکن اگر اپنی زبان میں ترجمہ کرلیا جائے تو پھر نہیں، اسے اس مثال سے سمجھئے: ٹیلی وژن کو اس طرح استعمال کیا تو نیا لفظ ملا لیکن دور درشن کہنے پر نیا لفظ حاصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ دور اور درشن پہلے سے زبان میں موجود ہیں۔ اپنے دوالفاظ جوڑ کر ترجمہ کرلیا گیا لیکن ذخیرہء الفاظ کی گنتی میں اضافہ نہ ہوا۔
بلحاظِ استعمال زبان کا عام واضح اور دوٹوک استعمال عام لوگوں کی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے والی زبان ہے۔ تعلیم یافتہ سے لے کر ان پڑھ جاہل تک زبان کو روز مرہ کے معمولات، گفتگو، لین دین وغیرہ کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس صورت میں زبان کے الفاظ اپنی سادہ صورت میں ابلاغ کا باعث بنتے ہیں۔ سیدھی بات، براہِ راست اظہاریہ زبان کا عملی استعمال (Functional) ہے۔
عملی استعمال میں ذخیرہء الفاظ خاصا محدود ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے شماریاتی کوائف نہیں جن کی روشنی میں یہ طے کیا جاسکے کہ عام آدمی روز کتنے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ معمولات کے الفاظ کی تعداد ڈیڑھ دوسو الفاظ کے سہارے بسر کردیتا ہے۔ گویا ضرورت کی مناسبت سے فرد کے زیرِ استعمال الفاظ کی تعداد کا تعین ہوگا۔ جتنی کم ضرورت اتنے ہی کم الفاظ۔
عام آدمی کی روز مرہ کی گفتگو میں لفظ کے حسن اور اسلوب کی جمالیات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ بعض اوقات تو لفظ کا تلفظ بھی درست نہیں ہوتا اور نہ ہی قواعد کی بطور خاص پابندی کی جاتی ہے۔ عام آدمی زبان کی باریکیوں اور استعمال کی نزاکتوں سے واقف نہیں ہوتا۔ اس نے تو صرف دوسروں کو اپنی بات سمجھانی اور دوسرے کی بات سمجھنا ہے اس لئے اُسے اہلِ زبان کے روز مرہ، محاوروں کے برمحل استعمال اور لفظ کے تخلیقی استعمال سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اہلِ زبان کے روز مرہ کے مطابق مجھے کھانا کھانا ہے، مجھے کراچی جانا ہے درست ہے لیکن عام آدمی یوں نہیں بلکہ اس طرح بولے گا، میں نے کھاناکھانا ہے، میں نے کراچی جانا ہے۔
گزشتہ پون صدی کے حالات نے زبان کے مراکز اور اہلِ زبان ختم کردیئے۔ اب سند دہلی اور لکھنو¿ سے نہ ملے گی کہ ان شہروں کی اردو کا ہم سے بھی برا حال ہے۔ اب وہاں عام آدمی وہ ”اردو“ بول رہا ہے جو بھارت کی فلموں کے کردار بولتے ہیں اور جسے ہندی کہاجاتا ہے۔ تو ایسے میں جب اہلِ زبان نہ رہے تو ان کا روز مرہ، محاورات، ان کا تلفظ، ان کی تذکیر و تانیث، ان کا مخصوص لسانی لہجہ کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔ پشتو، بلوچی، براہوی، سرائیکی بولنے والے سے اہلِ لکھنو¿ کے لہجہ کی ادائیگی اور روز مرہ کی پابندی کی توقع عبث ہے۔ بدلے حالات روز مرہ جیسی اصطلاحات کو متروک قرار دے رہے ہیں۔ اس لیے زبان کو دہلی اور لکھنو کے برعکس اب اس طرح دیکھنا ہوگا کہ ملتان، بہاولپور، کوئٹہ، پشاور ، ڈیرہ غازی خان، جام شورو، لاڑکانہ، گوجرہ میں یہ کیسے بولی جارہی ہے۔
دہلی اور لکھنو کی اشرافیہ کے پاس زبان اور شاعری کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا اور اسی کے وہ محافظ بنے رہے اور ان ہی تک زبان کی فصاحت اور لطافت محدود رہی۔ لہٰذا اس کا قوی امکان ہے کہ عام، عوام اور ان پڑھ عورتیں اپنے ڈھنگ کی زبان بولتی ہوں گی۔ زبان کا برتر اور اعلیٰ استعمال تخلیقات کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لئے اسلوب کی جمالیات تشکیل پاتی ہے۔ استعاروں،تشبیہات، علامات اور صنعتوں سے کام لیا جاتا ہے۔ یوں کہ میں نے جانا کہ گویایہ بھی میرے دل میں ہے۔
جہاں تک تخلیقات کے لئے مستعمل تخلیقی زبان کاتعلق ہے تو وہ بول چال کی عام زبان سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ اس امر کے باوجود کہ اس کے الفاظ عام بول چال کی زبان سے الگ، مختلف یا جداگانہ نہیں ہوتے۔ الفاظ وہی ہوتے ہیں لیکن استعمال کے قرینے ان میں مفاہیم کے جہانِ نو پیدا کردیتے ہیں۔ استعارہ اور علامت اس کی معروف مثالیں ہیں۔ استعارہ کی صورت میں لفظ بنیادی معنی کے ساتھ ساتھ لفظ دائمی بقا بھی حاصل کرلیتا ہے کہ مفہوم کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ خود ہی مفہوم بھی بن جاتا ہے۔
تخلیقی مقاصد کے لئے زبان کو بروئے کار لانے کے سلسلہ میں زبان کو جمالیاتی اوصاف سے مزین کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے مختلف صنعتوں سے کام لیتے ہوئے اسلوب کی جمالیات سے ابلاغ کو دلکش بنانے کی سعی کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ زبان کی جمالیات اپنی دلکشی اور حسن آفرینی کے باوجود سادگی سے دور ہوتی جاتی ہے اور غُلو برتنے کے نتیجہ میں اس کا بھی امکان ہے کہ صرف حسن ہی حاصل ہو، معانی اور مفہوم حسن کاری میں گم ہوجائیں۔
لیکن یہ بھی طے ہے کہ یہ تخلیقی استعمال ہی ہے جس کے باعث لفظ اپنی داخلی توانائی اجاگر کرسکتا ہے۔ یوں کہ معانی لو دے کر جگمگانے لگیں۔ پرانی داستانوں کا اسمِ اعظم بھی یہی تھا اور ساحر کے منتر بھی، ماں کی لوری اور گورو کا اشیرباد بھی، دعا، بددعا، شراپ سبھی لفظ ہیں اور یہی لفظ موسیقی کے سُر میں تبدیل ہوکر اعصاب کے ستار کے لئے مضراب کا کام کرتا ہے۔ شاید اسی لئے بائبل میں لکھا گیا:
سب سے پہلے Logos/ لفظ/ کلمہ تھا۔
لفظ کے سلسلہ میں حضرت علی کا بصیرت افروز قول ملاحظہ کیجئے:

”الفاظ انسان کے غلام ہوتے ہیں لیکن بولنے سے پہلے، بولے جانے کے بعد انسان اپنے الفاظ کا غلام ہوجاتاہے۔“

عام آدمی کے برعکس واعظ اور سیاست دان کی تقریر کا مقصد واحد ہوتا ہے لیکن خطابت کی ہنڈیا میں ”مزا“ پیدا کرنے کے لئے مترادفات کا تڑکا لگاتا ہے۔ اگر آپ واعظ اور سیاست دان کی تقاریر کاغذ پر لکھ کر ان میں سے مترادف حذف کردیں تو ۔۔۔۔۔ افسوس حاصل کا!
زبان کے حوالے سے ان دنوں میڈیا زیرِ عتاب ہے۔ بالخصوص ٹیلی وژن کے اینکر پرسن اور نیچے چلنے والی خبروں کی پٹی ناقص تلفظ اور غلط املا کی وافر مثالیں پیش کرتی ہیں۔ اگرچہ ایسا نہ ہونا چاہئے کہ عوام کے لئے یہ ایک طرح کے معلم ہوتے ہیں۔ اس کی ایک یہ وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ٹیلی وژن پر زبان تخلیقی، جمالیاتی، آرائشی نہیں بلکہ Functional ہوتی ہے۔ یعنی سیدھے سادہ بلاواسطہ اسلوب میں کوائف اور معلومات کی فراہمی۔ جب کہ زبان کو ادبی بنانا مقصود ہوتو پھر اس مقصد کے لئے اشعار سے کام لیا جاتا ہے بالعموم جن کی ادائیگی غیر معیاری ہوتی ہے۔ ان دنوں اخبارات کی سرخیوں اور خبروں میں انگریزی الفاظ کا بے تحاشہ اور بے محانہ استعمال بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ حالانکہ انگریزی الفاظ کے اردو مترادفات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود انگریزی کی مسلسل یلغار کے سامنے اردو اپنے مورچوں سے پسپائی اختیار کررہی ہے جس کا غلامانہ ذہنیت کے بنیادی سبب کے بعد دوسری وجہ انگلش میڈیم اسکولوں کی کثرت ہے۔
دراصل یہ اور اس انداز کی دیگر مثالیں اردو زبان کے بدلتے تیور کے باعث ہیں۔ اردو میں انگریزی الفاظ کی آمیزش آج کا وقوعہ نہیں بلکہ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی انگریزی الفاظ گفتگو اور تحریر و تقریر میں شامل ہونے لگے حتیٰ کہ اردو غزل میں بھی انگریزی الفاظ کے استعمال کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ جیسے مصحفی کے یہ اشعار:

عشق کے ہاتھوں نالاں ہیں سبھی خورد و بزرگ
ہیں کلیجے سینکڑوں کھائے ہوئے اس ڈاگ کے

یارانِ سخن گوئی ہے وہ کمپنی اپنی
نت جس کی سلامی لے فرانسیں کی ٹوپی

صفوں کی صف اُڑادیتے ہیں جس دم فیر بولے
یہ گورے کرتے ہیں ایسی ہی الحق آتش افروزی

زخمِ شمشیر، نگاہ حیف کہ یہ اچھا نہ ہوا
کرنے کو اس کی دوا ڈاکٹر انگریز آیا

آرگن کے تئیں جس نے بنایا ہے، رکھے ہے
ہر پردے میں سو ساز، مقامات کی آواز

اس نے پروانے جلائے اس نے مرغان ہوا
ایک سا کیا بنا تھا اس رفل کا سنگ و شمع

جلو میں رہتی تھی لالے کی سرخ پلٹن بھی
چمن کے تخت پہ تھی جبکہ بادشاہیء گُل

انشاءاللہ خان انشاءجدت پسند شاعر تھے۔ انہوں نے اپنے ایک قصیدہ میں متعدد انگریزی الفاظ سے کام لیا، مطلع پیش ہے:

بگھیاں پھولوں کی تیار کر اے بوئے سمن
کہ ہوا کھانے کو نکلیں گے جوانانِ چمن

اس قصیدہ میں انگریزی کے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں:
پاﺅڈر، کوچ، گیلاس (گلاس) ارگن، ٹفن۔
یہ سرسید احمدخان اور ان کے رفقائے کار تھے جنہوں نے شعوری طور پر اور غالباً منصوبہ کے تحت اردو نثر میں انگریزی الفاظ کی آمیزش شروع کی۔ کیا اس کی وجہ قومی احساسِ کمتری تھا؟ اظہارِ علم مقصود تھا یا انگریزی کے الفاظ سے اردو باثروت بنانے کی سعی تھی؟ میرے خیال میں تینوں وجوہ ہی محرک قرار دی جاسکتی ہیں۔
اس عمل پر تحفظات ہونے کے باوجود یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ بدلے سیاسی حالات میں اردو میں انگریزی الفاظ کی شمولیت اردو کے امتزاجی مزاج کے عین مطابق تھی۔ اردو کی اسی خصوصیت کا فخریہ بیان کیا جاتا ہے کہ اردو ہر زبان کے ہر نوع کے الفاظ اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ اس لحاظ سے سرسید احمد خاں، مولانا الطاف حسین حالی اور دیگر اہلِ قلم نے اپنے اسلوب میں نئے رنگوں کی آمیزش کے لئے انگریزی الفاظ استعمال کئے تو کچھ غلط نہ کیا۔ لیکن آج جس تیز رفتاری سے اردو انگلش بنتی جارہی ہے تو اندیشہ ہے کہ کہیں یہ نہ ہو کل کو انگریزی زبان ہی اردو قرار پاجائے۔کیا 1857 کی وجوہ 2014 میں بھی جائز ہیں؟
ہماری مانند دنیا کی دیگر زبانوں کو بھی انگریزی کی بالادستی کے خطرہ کا احساس ہے اور بعض ممالک جیسے ایران، چین، فرانس، حتیٰ کہ بنگلہ دیش نے اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر اپنی زبان میں انگریزی الفاظ کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔
اخبار اردو (اسلام آباد جنوری 2011) میں مطبوعہ خبر پیش ہے:
”چین کے اشاعت عامہ کے سرکاری ادارہ”جنرل ایڈمنسٹریشن آف پریس اینڈ پبلی کیشنز“ نے حال ہی میں جاری کردہ اپنے نئے قواعد و ضوابط میں ملک کے اندر چینی اخبارات، کتابوں اور ویب سائٹوں میں انگریزی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور چینی زبان کو اس سے درپیش لسانی خطرات کے باعث انگریزی الفاظ اور محاورات کے استعمال پر فوری پابندی عائد کردی ہے۔ چینی قواعد و ضوابط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ روز مرہ چینی زبان کے الفاظ اور مخففات میں انگریزی کا بے جا استعمال لسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ پر موجود اطلاعات کے مطابق واضح کیا گیا ہے کہ انگریزی کے بے محابہ استعمال سے چینی زبان اور ثقافتی ماحول میں ملکی ہم آہنگی اور لسانی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ ان قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں اور اداروں کے ذمہ داران کو سخت سزا دی جائے گی۔“
روزنامہ جنگ (لاہور ، 30 جولائی 2006) سے یہ خبر بھی ملاحظہ ہو:
”تہران (آن لائن) ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے سرکاری اور دیگر ثقافتی تنظیموں اور اداروں کو حکم جاری کیا ہے کہ فارسی زبان سے تمام غیر ملکی الفاظ ختم کروائے جائیں۔ خبررساںادارے کے مطابق احمدی نژاد نے یہ حکم مہینہ رواںکے شروع میں جاری کیا۔“
یہودیوں نے مردہ عبرانی کو حیات نو دے کر قومی اور سرکاری زبان بنالیا جبکہ ہم زندہ زبان کو مردہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ کبھی انگریزاردو سیکھتے تھے۔ فورٹ ولیم کالج کا قیام اسی ضرورت کے تحت عمل میں لایا گیا تھا۔ اور ایک ہم ہیں کہ انگلش میڈیم اسکولوں کے ذریعے سے انگریزی کی یلغار، ہر شہر میں عام بول چال کی انگریزی سکھانے کے لئے اکیڈمیاں فعال ہیں۔ علامہ اقبال نے بڑے دکھ سے کہا تھا :
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
یہاں تو پوری قوم ہی بے حمیت ہوچکی ہے۔ اس لئے زندہ زبان کو درگور کرنے کی فکر میں ہیں۔ یہ فراموش کرکے زبان، تہذیب، ثقافت، تخلیقات کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرتے ہوئے مستقبل کے لئے سمت نما بھی ہوتی ہے مگر ہمارا کیوں کہ کوئی مستقبل نہیں اس لئے زبان کی راہنمائی اور سمت نمائی کی بھی ضرورت نہیں۔
زبان کے بدلتے تیور بلکہ تیوروں کے ضمن میں اساسی سوال، زبان، میں دوسری زبانوں کے الفاظ کیوں اور کیسے شامل ہوجاتے ہیں۔ اس سوال اور اس سے وابستہ امور کی دوصدیوں کو خارجی اور داخلی قرار دیا جاسکتا ہے۔ دو زبانوں کا بوجوہ سنگم ہو تو زیادہ ترقی یافتہ زبان کم ترقی یافتہ زبان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس صورت میں کہ کم ترقی یافتہ زبان ترقی یافتہ زبان سے حسبِ ضرورت الفاظ اخذ کرکے باثروت ہوتی ہے۔ کسی علم، علمی نظریہ، سے وابستہ مخصوص اصطلاحات زبان کا حصہ بن جاتی ہیں جیسے اردو میں نفسیات، معاشیات، عمرانیات، سائنسی اور طبی اصطلاحات کا مروج ہونا۔
ایجادات، آلات، اشیاءجب معاشرہ میں متعارف ہوتی ہیں تو ساتھ ہی ان سے وابستہ الفاظ بھی عام بول چال کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے ہی ٹرانسسٹر، VCR، ٹیلی وژن، کیسٹ، موبائل، کمپیوٹر سے وابستہ متعدد الفاظ زبان میں شامل ہوگئے یوں کہ وہ اجنبی بھی نہیں محسوس ہوتے۔ داخلی صورت حال البتہ اتنی واضح نہیں۔ الفاظ کی کثرت استعمال اور قلت استعمال سے متعلق زبان زد عوام الفاظ حیاتِ مسلسل کے حامی ہوتے ہیں اور کثرت استعمال ہی میں ان کی بقا ہے۔ جبکہ عوام کی زبان سے بالعموم خارج رہنے والے الفاظ لغت میں خوابیدہ رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک نوع کا متروکات کا عمل ہے جو الفاظ کے عدم استعمال سے مشروط ہوتا ہے۔ الفاظ کا استعمال، کم استعمال، عدم استعمال مروج زبان کے مزاج/ انداز/ لہجہ/ تیور/ اسلوب کا تعین کرتا ہے۔
ہم بالعموم سہ لسانی ہیں گھر پر اپنے علاقے کی زبان (پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، ہندکو وغیرہ) بولتے ہیں۔ عام بول چال اور رابطہ کے لئے اردو زبان جبکہ دفتری امور کے لئے انگریزی۔
تحریر اور تقریر میںان تینوں ہی سے کام لیتے ہیں۔ اس وقت اردو میں دوسری قومی زبانوں کے متعدد الفاظ استعمال ہورہے ہیں بلکہ اب تو انڈین فلموں اور ڈراموں کے باعث ہندی الفاظ بھی بولے جارہے ہیں۔
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پیزا (رشین)، پاستا/ برگر (اٹالین)، ڈونٹ/ کوکا کولا( امریکی) شوارما (عربی) سویاساس (جاپانی) روز مرہ بول چال میں شامل ہوگئے۔ جبکہ سعودی عرب یا خلیج ریاستوں میں آباد پاکستانیوں کی لڑکیوں کے عربی نام رکھے جارہے ہیں جو اردو کا حصہ بن چکے ہیں، اس انداز کی مثالوں کی کمی نہیں۔ انگریزی یا دیگر زبانوں کے متعدد الفاظ کثرت سے ہماری زبان پر چڑھ کر اردو میں شامل ہورہے ہیں بلکہ کثرت استعمال کے باعث غیر ملکی الفاظ بھی اردو ہی کے الفاظ بن جاتے ہیں۔ اس سے ایک اور الجھن جنم لیتی ہے کہ ان بدیشی الفاظ کا تلفظ، املا اور محل استعمال کیا ہو؟ اس ضمن میں بعض حضرات اس پر اصرار کرتے ہیں کہ ایسے الفاظ کو ان کی اصل زبان کے مطابق ہی لکھو، بولو اور بروئے کار لاﺅ تاکہ وہ اپنی اصل کے مطابق اپنا تشخص برقرار رکھ سکیں۔ لیکن اس کے برعکس ایسے حضرات کی بھی کمی نہیں جو اردو میں ان کے متغیر املا اور استعمال کو جائز قرار دیتے ہیں۔ دیکھئے دو سوبرس قبل لکھنو میں انشاءاللہ خان انشا نے ”دریائے لطافت“ میں کیا معقول بات کی:
”جو لفظ اردو میں مشہور ہے اور مستعمل ہوگا خواہ عربی ہو یا فارسی، ترکی یا سریانی، پنجابی ہو یا پوربی، اپنی اصل کی رو سے غلط ہو یا صحیح اب وہ لفظ بہرحال اردو ہے اگر اصل کے موافق مستعمل ہو تو صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہو تو بھی صحیح، اس کا صحیح ہونا اردو کے استعمال پر منحصر ہے۔ اس لئے کہ جو لفظ اردو کے مزاج کے موافق نہیں، اصل کے لحاظ سے درست کیوں نہ ہو اور جو چیز اردو کے موافق ہے وہ صحیح ہے خواہ اصل کے لحاظ سے غلط ہی کیوں نہ ہو۔“
انشاء سے قبل خان آرزو بھی ایسی ہی رائے کا اظہار کرچکے تھے۔ ”نوادر الالفاظ“ کے مقدمے میں ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:
”دخیل الفاظ کے تلفظ اور املا کے سلسلے میں خان آرزو کی رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں لفظ کی وہ صورت (مکتوبی یا ملفوفی) اختیار کی جائے جو اہلِ زبان (عوام اور خواص دونوں) میں رواج پذیر ہوچکی ہو۔ ایسے لفظوں کے لئے اصل زبان کی پیروی ضروری نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ نئی زبان میں اس کی وہ صورت سامنے رہنی چاہیئے جو صرف عوام میں ہی مروج نہ ہو بلکہ عام خاص سب کے نزدیک تسلیم ہوچکی ہو۔“ (ص 37)
خود انگریزی زبان بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں۔ جس میں یونانی، لاطینی، عربی، فارسی، اردو اور بھارت کی متعدد زبانوں کے الفاظ شامل ہوچکے ہیں۔ اس کا ایک سبب برطانیہ میں کثیر تعداد میں آباد مسلم، ہندو اور سکھ ہیں جن کے اشیائے خوردونوش، لباس وغیرہ کے نام ہیں جب کہ اس سے قبل جب ہندوستان برطانوی تسلط کے زیراثر تھا تو لاتعداد انگریزوں نے ہندوستانی کھانوں، مشروبات، ملبوسات، عام استعمال کی اشیاءوغیرہ کے نام سنے، سیکھے اور پھر اپنی تحریر و تقریر میں انہیں استعمال کیا یوں مقامی الفاظ انگریزی میں شامل ہوگئے۔ شروع شروع میں لب ولہجہ کے اختلاف کے باعث ایسے الفاظ نامانوس محسوس ہوئے ہوں گے لیکن مسلسل سننے کے باعث کان ان سے مانوس ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے پشاور، کوئٹہ، لاڑکانہ وغیرہ میں رہنے والے بلوچی، پشتو اور سندھی کے لہجہ اور الفاظ سے مانوس ہوجاتے ہیں۔
اسی سے ہم غریب/ دخیل الفاظ کی طرف آتے ہیں۔ دوسری زبانوں کے وہ الفاظ جو بوجوہ زبان کا حصہ نہیں بن پائے، یوں فصاحت کے محل میں داخلہ نہیں ملتا، رئیس کے گھر غریب رشتہ داروں کی مانند۔ غریب یا دخیل الفاظ دوسری زبانوں کے ایسے الفاظ ہیں جو زبان کے مرکزی دھارے میں بوجوہ شمولیت سے محروم رہتے ہیں۔ ایک وجہ نا ملائم صوتی آہنگ ہوسکتی ہے تو دوسری کسی خاص نوع کے معانی و مفاہیم کی عدم ادائیگی یا پھر کسی عام، مروج اور مقبول لفظ سے مشابہہ یا مترادف ہونا۔ دخیل کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہیں زبردستی زبان میں داخل کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں لیکن یہ بھی ہے کہ ان کا خوش دلی سے استقبال بھی نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا زبان میں ہونے کے باوجود زبان کاحصہ نہیں بن پاتے۔
مدت ہوئی اشفاق احمد نے ”اردو کے خوابیدہ الفاظ“ کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب مرتب کی تھی جو ایسے الفاظ پر مشتمل تھی بظاہر تو وہ پنجابی اور سندھی کے محسوس ہوتے ہیں لیکن ہیں اردو ہی کے۔ اس ضمن میں اشفاق احمد لکھتے ہیں:
”…. تحریرو تقریر میں تو اب کم استعمال ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی علاقائی زبانوں میں اظہار کا اہم حصہ ہیں۔ ان الفاظ نے خداجانے کب اور کس وجہ سے اپنی حرکی قوت کھودی کہ انہیں لغت کے اوراق میں روپوش ہونا پڑا اور ان کی روپوشی کے بعد کوئی انہیں اپنے بیان کی داستان سرائے میں واپس نہیں لاسکا۔ یہ الفاظ خوابیدہ ضرور ہیں متروک نہیں۔“
ہم نے زبان کے لئے دریا کی مثال سے مضمون کا آغاز کیا تھا اور اسی پر اختتام کررہے ہیں۔
دریا اپنے زور سے راستے کی تمام رکاوٹوں پر قابو پا کر اپنا سفر جاری رکھتا ہے لیکن اگر دریا کی روانی پُرقوت نہیں تو راستہ میں دم توڑدیتا ہے۔ جیسے ویدک عہد کا دریا سرسوتی (گھاگھرا بھی کہاگیا) چولستان کا صحرا عبور نہ کرسکا ، ریگستان میں جذب ہوگیا۔ اسی طرح زبانیں بھی اپنی توانائی سے آگے بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہیں۔ نئے الفاظ انہیں جوان رکھتے ہیں اور افکارِ نو اس کا رشتہ آنے والے زمانوں سے بھی استوار رکھتے ہیں۔ زبان زمانہ نہ سہی لیکن زمانہ کے سرمایہ کی حامل اور محافظ تو ہے۔

Related posts

Leave a Comment