کرشن کمار طور کا گل گفتار …  پروفیسر قیصر نجفی

غزل کو اردو شاعری کی آبرو بننے میں کتنا عرصہ لگا، یہ جاننے کے لئے سو پچاس سال کی نہیں صدیوں کی تقویم درکار ہے۔ کون جانتا تھا کہ عربی قصیدہ کی پیش گاہ، ایک روز جلوہ گاہ غزل کہلائے گی، اور پھر غزل ایک روز فارسی ادب کے دوش پر سوار برصغیر ہندو پاک میں وارد ہوگی اور یہاں کے اکثر باشندوں کے دل و دماغ دونوں کو مسخر کرلے گی۔ گزشتہ دنوں ہندوستان کے ایک قریہ¿ شاداب دھرم شالہ سے غزل کی خوشبو میں ڈوبا ہوا ہوا کا ایک جھونکا آیا، یعنی کرشن کمار طور کا تازہ مجموعہ غزلیات ”گل گفتار“ موصول ہوا، جس نے ہمارے دل کو چھولیا۔
”گل گفتار“ کرشن کمار طور کا ساتواں، غزلوں کا مجموعہ ہے۔ جس کی اشاعت نے آفاق ادب پر ان کے غزلیہ مجموعوں کو سات سہیلیوں کا جھمکا بنادیا ہے۔ یہ عقد ثریا بصارت افروز بھی ہے اور بصیرت نواز بھی۔ اس موقع پر یہ ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ ہندوستان کی اردو اکادمیوں نے طور کی غزلیات کے بعض مجموعوں کو گاہے بگاہے انعامات و اکرامات سے نواز کر ان کے سر پر دستارِ فضیلت بھی باندھی ہے۔ ”گل گفتار“ کے علاوہ کرشن کمار طور کے مجموعہ ہائے غزلیات جس ترتیب سے منظر عام پر آئے ہیں۔ اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔
٭ شہرِ شگفت۲۸۹۱ء٭عالم عین ۸۸۹۱ء٭ مشکِ منور ۰۹۹۱ء٭ رفتہ رمز ۲۰۰۲ء٭ سرمایہ رمز ۵۰۰۲ء٭ غرفہ¿ غیب ۳۱۰۲ئ۔ طور کی شاعری کی ستائش میں اہلِ زبان کی بستیوں سے جب نعرہ¿ تحسین بلند ہوتا ہے تو بیساختہ حفیظ جالندھری کا درج ذیل شعر یاد آجاتا ہے۔
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
طور کا خمیر لاہور کی خاک سے اٹھا۔ لاہور کے بعد پہلے انبالہ، بعد میں پٹیالہ اور آخر میں دھرم شالہ میں طلوع ہوئے، جہاں سے کم و بیش نصف صدی سے اردو دنیا میں فکر و فن کے اجالے بکھیر رہے ہیں۔
کرشن کمار طور ایک رود گو اور بسیار نویس شاعر ہیں۔ ہر چند زود گوئی اور بسیار نویسی، امتیازی خصوصیات متصور ہوتی ہیں۔ تاہم بعض اوقات عیوب کی شکل بھی اختیار کرلیتی ہیں اور وجہ¿ افتخار بننے کے بجائے خجالت کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس بات کا طور کو بھی ادراک ہے۔ لہٰذا انہوں نے ان دونوں صلاحیتوں کو تخلیقی جمالیات سے ہم آہنگ رکھا ہے۔ کرشن کمار طور ایک کہنہ مشق تخلیق کار ہیں۔ ان کا شعور تخلیقیت کی روح تک رسا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے ہاں فکر و خیال، موضوع و مواد اور زبان و بیان ہر لحاظ سے ایک اختراعی عمل کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی ذہنی اُپچ نے کہیں بھی انہیں تکرار و اعادہ یا نقل و توارد کا شکار نہیں ہونے دیا ہے۔ ان کی غزل ایسا طلائے فن ہے، جسے کندن بننے کے لئے نصف صدی سے زیادہ مدت تک ریاضت کی بھٹی سے گزرنا پڑا ہے۔ کرشن کمار طور ایسے فنکار، فنکار نہیں مکتبِ فن تسلیم ہوتے ہیں۔ یہ فنکار فکر و فن کے نئے نئے زاویئے بھی سامنے لاتے ہیں اور شعر و ادب کی روایتی اقدار کا شعور بھی دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک طور کا اختصاص یہ ہے کہ جہاں انہوں نے متنوع مضامین سے اپنی غزل کی معنیاتی جہات میں اضافہ کیا ہے وہاں لفظیات کو نئے نئے معانی و مفاہیم بخش کر اپنے غزلیہ اسلوب کو عصری غزل سے مربوط کردیا ہے۔
سکھادیا ہے زمانے کو ہم نے آخر کار
جو لفظ دوست میں ہے طنز وہ عدو میں نہیں
یہ اور بات ہے دل پڑھ رہا ہے نسخہ¿ فرق
ہمارے قصہ¿ غم میں تو ہم زباں ہی نہیں
یہی تضاد تو سرمایہ میری زیست کا ہے
یہاں عروج میں کچھ ہے زوال میں کچھ ہے
لوگ کہتے ہیں کہ اک آزار لگایا ہوا ہے
ہم نے جو باغِ ثمردار لگایا ہوا ہے
یہ گمرہی کی ہے منزل کہ بے خودی کا وفور
خدا بہ نام خدا کچھ نظر نہیں آتا
غزل میں عشق و محبت کے مضامین کا استعمال تغزل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں عشقیہ مضامین سے عاری غزل کو سرے سے غزل ہی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ شاید اسی تعرض کے سبب خواجہ میر درد کو ایک صوفیِ با صفا ہونے کے باوصف عشقِ مجازی کے اشعار کہنے پڑے۔
جوں جوں وہ کٹے ہے تو یہی آتی ہے جی میں
پھر چھیڑیئے اور باتیں سنا کیجئے اس سے
ہر چند فی زمانہ شاعر عصری غزل میں محبت کی باتیں نظم کرنے کی قدغن سے آزاد ہے، پھر بھی کرشن کمار طور چونکہ غزل کے فنی مزاج سے کماحقہ واقف ہیں، تغزل سے عاری غزل کہنے کے متحمل نہیں ہوسکے ہیں۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ”گل گفتار“ کی اکثر غزلوں میں عاشقانہ اشعار نظم کئے ہیں اور اپنی غزل کو دیگر شعری جمالیات کے پہلو بہ پہلو حسن تغزل سے بھی آراستہ کیا ہے۔
یہ جی میں تھا کریں گی گفتگو تجھ سے
مگر آنکھوں میں اک دریا اُتر آیا
پلٹ دی جتنی بھی کایا تھی ایک وصل نے بس
ہوائے عشق سے سارا بدن ہوا سرسبز
زنجیر کریں اسے تو کیسے
وہ تو جھونکا ہے اک ہوا کا
رکھتا ہے یوں فصلِ عشق سرسبز
ہوتا ہے وہ روبرو زیادہ
محبت دو کناروں کی طرح ہے
اگر اس پار سے اس پار دیکھیں
نہیں کچھ اور کرنے کا جنوں بھی
ترا بندِ قبا ہی کھولتے ہیں
ایسی کئی مثالیں دیدہ و شنیدہ ہیں اور جن کا بلا خوف تردید حوالہ دیا جاسکتا ہے کہ بعض قلم کار زندگی کے آخری حصے میں تصوف کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ البتہ چند فکری سطح پر اور چند ایک عملی طور پر صوفیانہ شعار اختیار کرلیتے ہیں۔ ہم کرشن کمار طور کو ایک بھگت یا کوئی سنت سادھو تو قرار نہیں دیتے لیکن یہ ضرور اعتراف کریں گے کہ ان کے یہاں روحانیت کا بھرپور تاثر ملتا ہے۔ خصوصاً انسان، زندگی، کائنات اور خدا کے درمیان اس ربط کا احساس ہوتاہے، جسے صرف چشمِ باطن سے دیکھا جاسکتا ہے۔
اس لمحہ¿ وارد میں نہ میں اور نہ تو تھا
آفاق میں جو کچھ بھی تھا آوازہ¿ ہُو تھا
خبر بھی آئی نہ ہم کو ہمارے ہونے کی
وہ کیا سفر تھا کہ جس پر ہمیں روانہ کیا
گماں بہت ہے ہمیں شاید اپنے ہونے کا
یقیں ہے خود میں ہم اک عالم ہُو رکھتے ہیں
ہر ایک کاسے میں سکے جب اس کے عشق کے ہیں
ہیں کیسے لوگ جو فرقِ من و تُو رکھتے ہیں
سلوکِ عشق سے تاکہ رہوں خبردار
ہر ایک شخص کو میں دل دیا کروں گا
بس ایک سنگ اناالحق کی اب ضرورت ہے
مرے وجود سے تیرے وجود کی خاطر
توُ تو ہے ماورا جہاں سے
دیکھ اس کا انکشاف مت کر
اہلِ علم جانتے ہیں کہ کربلا کے استعاراتی استعمال نے اردو غزل میں تفکر کے جو در وا کئے ہیں۔ وہ کربلا کو ایک عظیم حزنیہ کے مقام پر فائز کرتے ہیں۔ ۰۷ءکی دہائی میں آفاق غزل پر ابھرنے والے بیشتر شعراءنے کربلا کا جس ہنروری سے ایک صورت حال کے طور پر عصری زندگی پر انطباق کیا ہے۔ وہ کربلا کو تاریخ کا ایک ایسا عمل ثابت کرتا ہے، جس کی کوکھ سے حیات انسانی کا اساسی دستور عمل جنم لیتا ہے۔ کربلا انقلاب کا ایک قوی استعارہ ہے۔ ہمارے خیال میں کسی واقعہ کا انقلاب آفرین تلمیحاتی یا استعاراتی کردار اس وقت تک متعین نہیں ہوتا جب تک اس واقعہ کے باطن میں اتنی قوت حق پرستی نہ ہو کہ جو تحرک و زندگی کی حرارت اور انقلابیت کی حدت پیدا کرنے کے لئے ناگزیر ٹھہرے۔ اس حوالے سے واقعہ کربلا تاریخِ اسلام میں ہی نہیں، تاریخ عالم میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ کرشن کمار طور ایک روشن خیال سخنور ہیں اور حیرت انگیز حد تک کربلا کی معرفت رکھتے ہیں۔ ان کے اندر بھی حق پسندی کا الاﺅ روشن ہے، جس میں ان کا دل بھی دہک رہا ہے اور روح بھی۔
اک روشنی کربلا میں چمکی
اک شخص میرے نفس میں اترا
لہو سے رکھتی ہے زرخیز اب سروں کی فصل
یہی انا تو مثال فرات کرنی ہے
نہ ہم ہیں دست بریدہ نہ ہم علم بردار
مگر یہ آبِ فرات اپنا پار کرنا ہے
وہ جو نہیں کرتا اب نیا ستم ایجاد
خود کو بھی شبیرؑ کہاں کر پائے ہیں
”گل گفتار کے مطالعے سے ایک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ کرشن کمار طور لسانی تجربات کو شجرِ ممنوعہ نہیں سمجھتے۔ ان کے یہاں بھی اپنے ہم عصر مشکور حسین یاد کی طرح نئے نئے مصادر وضع کرنے کے رجحان کا پتا چلتا ہے۔ طور نے ”کنار“ سے کہ جو اسم ہے، ”کنارتا“ مصدر بنایا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
اگاتا کون ہے پتھر پہ نیلے نیلے پھول
ان آنسوﺅں کو یہاں بے کنارتا کون ہے
علاوہ ازیں انہوں نے بعض غزلوں میں دو یا دو سے زیادہ الفاظ پر مشتمل ردیفیں استعمال کی ہیں، جنہیں بلا تامل نوبہ نو تراکیب پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ جن میں سے اکثر مفرس و معرب وضع ہوئی ہیں۔ اس نوع کا لسانی تجربہ یقینا غزل کے ڈکشن کو وسعت دینے کا عمل قرار پاتا ہے۔
نہ اس سے خوش ہے زمیں اور نہ شاد ہفت افلاک
وہ شخص خود پہ گراں ہے بہت بہ خاک انداز
ہے میرے دل کی تراوٹ اسی کے ہونے سے
مرے سکوں کا امیں ہے سفینہ¿ زریاب
وجود اپنے کو تحلیل خاک رکھتا ہوں
کوئی تو نام و نشاں ہو مرا بہ طرزِ دگر
کرشن کمار طور نے ایک غزل میں ادق اور نامانوس الفاظ استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ایسے الفاظ کے نمونے مرزا غالب کے ابتدائی کلام کے علاوہ کہیں نہیں ملتے۔ غزل میں لفظیات کی غرابت غزل کے تاثر کو زائل کردیتی ہے۔ لیکن طور کے یہاں اس عیب کا یوں احساس نہیں ہوا کہ ایک تو انہوں نے ایک رواں بحر کا انتخاب کیا۔ دوسرے تمام اشعار میں اس نوع کی سادگیِ زبان سے کام لیا کہ غرابت الفاظ کلام کے لطف میں کہیں حائل نہیں ہوئی۔ بایں ہمہ اگر طور مشکل زبان و الفاظ کے استعمال سے احتراز کریں تو، بہتر ہوگا۔
وہ یار ہوا حاصل تب ہی
جب پار کئے خندوق اے دل
اس نے مجھے بھلانا ہی تھا
ہر ربط تھا کچھ اندوق اے دل
اس عشرت وصل کو جان کہ ہے
پہلو سے لگی بندوق اے دل
طور، ہجر و وصال کی باتیں
آخر کوہوئیں زندوق اے دل

Related posts

Leave a Comment