التباس ۔۔۔ شناور اسحاق

التباس شناور اسحاق DOWNLOAD

Read More

شناور اسحاق ۔۔۔ نہ مو قلم، نہ پرندے، نہ چشمِ نم مرے بعد

نہ مو قلم، نہ پرندے، نہ چشمِ نم مرے بعد رکھے گا کون ترے باغ میں قدم مرے بعد ہوائے شام! تری بازگشت مجھ تک ہے کرے گا کون مرے رفتگاں کا غم مرے بعد مگر یہ رقص، بغیرِ کمان و تیر و تبر رہے گی شہرِ غزالاں میں رسمِ رَم مرے بعد بہت قدیم سر و کار جائے گا مرے ساتھ پیے گا کون تری بے رخی کا سم مرے بعد جنوں میں صحو، خبر میں حلولِ بے خبری یہ ساز و رخت نہ ہو گا کبھی بہم مرے…

Read More

شناور اسحاق ……. سینہ سینہ سانسوں کے بٹوارےچلتے رہتے ہیں

سینہ سینہ سانسوں کے بٹوارےچلتے رہتے ہیں آشاؤں کے سندر بن میں آرے چلتے رہتے ہیں صدیاں اپنی راکھ اُڑاتی رہتی ہیں چوراہوں میں مَٹّی کی شَریانوں میں اَنگارے چلتے رہتے ہیں خاک نگرسے آنکھوں کاسنجوگ بھی ایک تماشا ہے آنکھیں جلتی رہتی ہیں، نظّارے چلتے رہتے ہیں دَر اَندازی کرنے والی آنکھیں رسوا ہوتی ہیں اَور جھیلوں میں جھالر دار شِکارے چلتے رہتے ہیں دنیا اپنے بازاروں میں ہاتھ ہِلاتی رہتی ہے اپنے دھیان کی گلیوں میں بنجارے چلتے رہتے ہیں

Read More

شناور اسحاق ۔۔۔۔۔۔ اُس بدن میں کوئی روشنی سے جدا روشنی تھی

اُس بدن میں کوئی روشنی سے جدا روشنی تھی تھی تو وہ خاک زادی مگر با خدا روشنی تھی یاد آتے ہی لو دینے لگتی ہیں پوریں بدن کی زیرِ بندِ قبا، سر تا پا، یار! کیا روشنی تھی یہ تو میں کہ رہا ہوں، ہمارے لیے تھی، وگرنہ اُس پہاڑی کے چاروں طرف بے ریا روشنی تھی میں جہاں تھا وہاں بستیوں میں اندھیرے بہت تھے اور جہاں روشنی تھی، وہاں بے بہا روشنی تھی روشنی کے پرستار اک مخمصے میں پڑے تھے اِک طرف تیرگی، اِک بے خدا…

Read More