علامہ طالب جوہری ۔۔۔ دھندے

دَھندے ۔۔۔۔۔۔ پچھلے سفر میں لندن کے اک تُرکی رستوران کے اندر اُس نے کہا تھا "سارے کاموں کو نپٹا کر میرے پاس چلے آنا رشتے، ناطے مستقبل کے سب منصوبے جب تم اپنے دھندوں سے فارغ ہو جائو میرے پاس چلے آنا ہم تم دونوں اپنے جنوں کی شمع جلا کر اپنے گھر کا گھور اندھیرا دُور کریں گے اور وہ گھر آباد رہے گا” لیکن مَیں اِک سندھی گوٹھ میں پھونس کے چھپر والے ہوٹل کی کرسی پر کب سے بیٹھا سونچ رہا ہوں دنیا کے دھندے کس…

Read More

کیا بتلائیں! ۔۔۔ شناور اسحاق

کیا بتلائیں! ۔۔۔۔۔۔۔ نِندیا پور میں شور مچانے یہ شبدوں کے غول نہ جانے کن جھیلوں سے آ جاتے ہیں نیند اکہری کر دیتے ہیں ( نیند اکہری ہو جائے تو راتیں بھاری ہو جاتی ہیں) دنیا داری رشتے ناطے بازاروں اور گلیوں کی سَت رنگی رونق بیداری کو گہرا کرنے والے جتنے حربے تھے سب ہم پر ناکام ہوئے ہیں سونے والوں کے صحنوں میں جاگنے والوں کی گلیوں میں ہم جیسے بے زار بہت بدنام ہوئے ہیں

Read More