احمد مشتاق … مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے

Read More

احمد مشتاق

اب شام تھی اور گلی میں رکنا اُس وقت عجیب سا لگا تھا

Read More

احمد مشتاق

ہر نئے چہرے کے ساتھ اک آرزو جاتی رہی گم ہوئیں چیزیں مری نقل مکانی میں بہت

Read More

احمد مشتاق

اِن مضافات میں چھپ چھپ کے ہوا چلتی تھی کیسے کِھلتی تھی محبت کی کلی، یاد نہیں

Read More