احمد مشتاق … مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے

Read More

جلیل عالی، احمد مشتاق

Read More

احمد مشتاق

اب شام تھی اور گلی میں رکنا اُس وقت عجیب سا لگا تھا

Read More

احمد مشتاق ۔۔۔۔۔ یہ کون خواب میں چھو کر چلا گیا مرے لب

یہ کون خواب میں چھو کر چلا گیا مرے لب پکارتا ہوں تو دیتے نہیں صدا مرے لب یہ اور بات کسی کے لبوں تلک نہ گئے مگر قریب سے گزرے ہیں بارہا مرے لب اب اس کی شکل بھی مشکل سے یاد آتی ہے وہ جس کے نام سے ہوتے نہ تھے جدا مرے لب اب ایک عمر سے گفت و شنید بھی تو نہیں ہیں بے نصیب مرے کان بے نوا مرے لب یہ شاخسانۂ وہم و گمان تھا شاید کجا وہ ثمرۂ باغِ طلب کجا مرے لب

Read More

احمد مشتاق

ہر نئے چہرے کے ساتھ اک آرزو جاتی رہی گم ہوئیں چیزیں مری نقل مکانی میں بہت

Read More

احمد مشتاق

اِن مضافات میں چھپ چھپ کے ہوا چلتی تھی کیسے کِھلتی تھی محبت کی کلی، یاد نہیں

Read More

احمد مشتاق

تمام رات پھڑکتے رہے گلاب کے پھول ہوا بھی تیز تھی اور ٹہنیوں کا جال بھی تھا

Read More