بانی ۔۔۔۔۔ او ستم گر! تو بڑا دشمنِ جاں ہے سب کا

او ستم گر! تو بڑا  دشمنِ جاں ہے سب کا کوئی بھی زخم سے چیخا تو زیاں ہے سب کا ہے تو اک شخص کے ہونٹوں پہ ترا قصّۂ غم شاملِ قصّہ مگر دودِ فُغاں ہے سب کا آ بھی جاتے ہیں اِدھر بیتی رُتوں کے جھونکے اب یہی خانۂ غم کنجِ اماں ہے سب کا اک چمک سی نظر آ جائے، تڑپ اٹھتے ہیں حسن کے باب میں ادراک جواں ہے سب کا ایک اک شخص ہے ٹوٹا ہوا اندر سے یہاں کیا چھپائے گا کوئی، حال عیاں ہے…

Read More

ایک عورت …… میرا جی

ایک عورت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سُر میٹھے ہیں ، بول رسیلے، گیت سنانے والی تُو، میرے ذہن کی ہر سلوٹ میں پھیلی نغمے کی خوشبو، راگنی ہلکے ہلکے ناچے جیسےآنکھوں میں آنسو! میرے دل کا ہر اک تار بن کر نغمے کی اک دھار ظاہر کرتا ہے تیرے پازیبوں کی مدھم، موہن مستی لانے والی جھنکار! تیرے دامن کی لہریں ہیں یا ہے مسلا مسلا گیت، یا ہے بھولے دل کی پہلی ،ننھی ، نازک، ناداں پیت، سادہ سادہ لیکن پل میں سب کے دل پر پائے جیت! میرے دل کا ہر…

Read More

قلندر بخش جرات

گھر سے وہ جاوے جہاں میں بھی وہیں ہوں موجود نہیں معلوم مجھے کون بتا دیتا ہے

Read More

ظہیر کاشمیری ۔۔۔۔۔۔ یہ کاروبارِ چمن اس نے جب سنبھالا ہے

یہ کاروبارِ چمن اُس نے جب سنبھالا ہے فضا میں لالہ و گُل کا لہو اچھالا ہے ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے ہجومِ گُل میں چہکتے ہوئے سمن پوشو! زمینِ صحنِ چمن آج بھی جوالا ہے ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے ہمارا عشق، ہوس سے بلند و بالا ہے سنا ہے آج کے دن زندگی شہید ہوئی اسی خوشی میں تو ہر سمت دیپ مالا ہے ظہیر، ہم کو یہ عہدِ بہار راس نہیں ہر ایک پھول کے…

Read More

گاؤں کی دہلیز پر ۔۔۔۔۔ ظفر گورکھپوری

گاؤں کی دہلیز پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سماں میری یادوں میں محفوظ ہے گاؤں سے مَیں چلا میری ماں اور رشتے کی کچھ بھابھیاں کچھ بڑی بوڑھیاں کچھ اڑوسی پڑوسی چھوڑنے آئے تھے گاؤں کی آخری حد پہ                                امرود کے باغ تک آبدیدہ تھے سب اپنی امی کی بانہوں سے تم ہمک کر مری گود میں آ گئے تھے مسکراہٹ میں برفی گھلی تھی اور معصوم "غوں غاں”              کہ تالاب…

Read More

عابد سیال

یہ عجب لوگ ہیں، دیتے ہیں تو اتنی تکریم کچھ کو منظور نہ ہو، کچھ کو سزاوار نہ ہو

Read More

ساحر لدھیانوی ۔۔۔۔۔ بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے

بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے اگر صدا نہ اُٹھے، کم سے کم فغاں نکلے فقیرِ شہر کے تن پر لباس باقی ہے امیرِ شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے ملال یہ ہے کہ کچھ خواب رایگاں نکلے اِدھر بھی خاک اڑی ہے اُدھر بھی خاک اُڑی جہاں جہاں سے بہاروں کے کارواں نکلے

Read More

کہیں ٹوٹتے ہیں ….. ابرار احمد

کہیں ٹوٹتے ہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت دور تک یہ جو ویران سی رہگزر ہے جہاں دھول اڑتی ہے صدیوں کی بے اعتنائی میں کھوئے ہوئے قافلوں کی صدائیں ، بھٹکتی ہوئی پھر رہی ہیں درختوں میں ۔۔۔۔ آنسو ہیں صحراؤں کی خامشی ہے اُدھڑتے ہوے خواب ہیں اور ہواؤں میں اڑتے ہوے خشک پتے ۔۔۔ کہیں ٹھوکریں ہیں صدائیں ہیں افسوں ہے سمتوں کا ۔۔۔ حدِ نظر تک یہ تاریک سا جو کرہ ہے اُفق تا اُفق جو گھنیری ردا ہے جہاں آنکھ میں تیرتے ہیں زمانے کہ ہم ڈوبتے ہیں…

Read More

احمد مشتاق

اِن مضافات میں چھپ چھپ کے ہوا چلتی تھی کیسے کِھلتی تھی محبت کی کلی، یاد نہیں

Read More