ابرار احمد ۔۔۔ مجھ کو معلوم ہے اب کوئی نہیں ہے میرا

مجھ کو معلوم ہے اب کوئی نہیں ہے میرا جہاں کوئی بھی نہیں کوئی وہیں ہے میرا وقت ہی کب ہے کہ ہر در پہ صدا دی جائے جانے کس اوٹ میں اب پردہ نشیں ہے میرا مجھے تسلیم ہے دنیا میں خوشی کم تو نہیں جینے دیتا جو نہیں قلبِ حزیں ہے میرا تُو کہ ہے صاحبِ اسباب تجھے ہو گی خبر ورنہ اتنا سا تو سب اپنے تئیں ہے میرا اور اس رنج سے وحشت بھی نہیں ہے مجھ کو تُو کہ میرا ہی سہی پھر بھی نہیں…

Read More

غلام حسین ساجد، عطاء الحق قاسمی، ابرار احمد، جمال احسانی، اصغر ندیم سید، اسد محمد خان

Read More

اور بارش ہے … ابرار احمد

اور بارش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بے کار محبت کی سیہ کاری میں بھیگ جاتا ہوں تو سو جاتا ہوں اور بارش ہے کہ گرتی ہی چلی جاتی ہے بند آنکھوں پہ تھکے اعضا پر شہر نم ناک میں سانسوں سے بھری گلیوں پر نارسائی کی طنابوں سے بندھے جسموں پر اور ناکردہ گناہوں کے تعفن زدہ کپڑوں سے بھرے کوٹھوں پر اور بے انت کے میدانوں میں!

Read More

ابرار احمد

میرے پاس کیا کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاس راتوں کی تاریکی میں کھلنے والے پھول ہیں اور بے خوابی دنوں کی مرجھائی روشنی ہے اور بینائی ۔۔۔ میرے پاس لوٹ جانے کو ایک ماضی ہے اور یاد ۔۔۔ میرے پاس مصروفیت کی تمام تر رنگا رنگی ہے اور بے معنویت اور ان سب سے پرے کھلنے والی آنکھ ۔۔۔۔ میں آسمان کو اوڑھ کر چلتا اور زمین کو بچھونا کرتا ہوں جہاں میں ہوں وہاں ابدیت اپنی گرہیں کھولتی ہے جنگل جھومتے ، بادل برستے ، مور ناچتے ہیں میرے…

Read More

کہیں ٹوٹتے ہیں ….. ابرار احمد

کہیں ٹوٹتے ہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت دور تک یہ جو ویران سی رہگزر ہے جہاں دھول اڑتی ہے صدیوں کی بے اعتنائی میں کھوئے ہوئے قافلوں کی صدائیں ، بھٹکتی ہوئی پھر رہی ہیں درختوں میں ۔۔۔۔ آنسو ہیں صحراؤں کی خامشی ہے اُدھڑتے ہوے خواب ہیں اور ہواؤں میں اڑتے ہوے خشک پتے ۔۔۔ کہیں ٹھوکریں ہیں صدائیں ہیں افسوں ہے سمتوں کا ۔۔۔ حدِ نظر تک یہ تاریک سا جو کرہ ہے اُفق تا اُفق جو گھنیری ردا ہے جہاں آنکھ میں تیرتے ہیں زمانے کہ ہم ڈوبتے ہیں…

Read More