کہیں ٹوٹتے ہیں ….. ابرار احمد

کہیں ٹوٹتے ہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت دور تک یہ جو ویران سی رہگزر ہے جہاں دھول اڑتی ہے صدیوں کی بے اعتنائی میں کھوئے ہوئے قافلوں کی صدائیں ، بھٹکتی ہوئی پھر رہی ہیں درختوں میں ۔۔۔۔ آنسو ہیں صحراؤں کی خامشی ہے اُدھڑتے ہوے خواب ہیں اور ہواؤں میں اڑتے ہوے خشک پتے ۔۔۔ کہیں ٹھوکریں ہیں صدائیں ہیں افسوں ہے سمتوں کا ۔۔۔ حدِ نظر تک یہ تاریک سا جو کرہ ہے اُفق تا اُفق جو گھنیری ردا ہے جہاں آنکھ میں تیرتے ہیں زمانے کہ ہم ڈوبتے ہیں…

Read More