بورخیس/محمد عاصم بٹ ۔۔۔ ڈیوچز ریکیوم

ڈیوچز ریکیوم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے مجھے قتل کرڈالا
تو کیا پھر بھی میں اس پر بھروسہ کروں۔
جاب ۱۳:۱۵

میرا نام اوٹو ڈیٹرچ زرلندے ہے۔ میرے آبائو اجداد میں سے ایک کرسٹوف زر لندے گھڑ سوار فوج کے حملے میں مارا گیا جوزوندروف کی فتح پر منتج ہوا تھا۔میرا پرنانا الرچ فارکل۱۸۷۰ کے اواخر میں مارکینائر کے جنگل میںفرانسیسی نشانے بازوں کے ہاتھوں گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ میرے باپ کپتان ڈیٹرچ زر لندے نے ۱۹۱۴ء میں نامرکے محاصرے اورپھردو سال بعد دریاے ڈینیوب پار کرتے ہوئے اپنی بہادری کا لوہا منوایا۔ (یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ راوی اپنے سب سے ممتاز جدامجد، ماہر الہیات ہبریسٹ جوہنزفورکل(۱۷۹۹-۱۸۴۶)کا ذکر کرنا بھول گیاجس نے ہیگل کی جدلیات کومسیحیت پر منطبق کیااورجس کے تورات کے ابواب ’ایپوکریفا‘ کی متعدد کتابوں کے لفظی تراجم پر ہینگسٹن برگ نے کڑی جانچ کی اور جنھیں تھیلو اور جیسنیس نے سراہا۔ ایڈیٹر کا نوٹ)
جہاں تک میرا تعلق ہے، مجھے ایک دہشت گرد اور قاتل کی حیثیت سے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ منصفانہ ہے۔بہت شروع ہی سے میں نے جرم کا اعتراف کرلیا تھا۔ کل جب عقوبت خانے کا گھنٹہ نو بجائے گا، میں موت کی وادی میں داخل ہو چکا ہوں گا۔ یہ فطری بات ہے کہ اب مجھے میرے آبائو اجداد یاد آرہے ہیں کیوں کہ میں ان کے سایے کے کس قدر نزدیک ہوں، کسی طور میں ان جیسا بن گیا ہوں۔
مقدمے کے دوران، جو خوش قسمتی سے مختصر دورانیہ کا تھا، میں ایک لفظ بھی نہ بولا۔ اس موقع پر،خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش، فیصلے کے عمل میں حارج ہونے کے مترادف اور میری بزدلی کا بھی اظہار تصور ہوتی۔ اب صورت حال بدل چکی ہے۔آج کی رات، جو میری سزاپر عمل درآمد پر منتج ہوگی،میں بلاخوف و خطربات کرسکتا ہوں۔مجھے قطعاً خواہش نہیں ہے کہ سزا معاف کی جائے۔کیوں کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن میںچاہوں گا کہ مجھے سمجھا جائے۔ جو لوگ مجھے سننا گوارہ کریں گے، وہ جرمنی کی تاریخ اور دنیا کے مستقبل کا ادراک کرلیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ میری طرح کے کیسز، جواب غیر معمولی اور حیران کن معلوم ہوتے ہیں، جلد ہی عمومی ہو جائیں گے۔ کل میں مرجائوں گا لیکن میں مستقبل کی نسلوں کا استعارہ ہوں۔
میں ۱۹۰۸ء میں میرین برگ میںپیدا ہوا۔ میرے دو جنون، جو اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں،لیکن جنھوںنے مجھے کئی ناخوش گوار برسوں کا بار جرات بلکہ مسرت کے ساتھ سہارنے کے اہل بنایا، موسیقی اور مابعد الطبیعات ہیں۔ اپنے سبھی مربیوں کے نام تو یہاں بیان نہیں کرسکتا لیکن دو نام ایسے ہیں جنھیں میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا،برہمز اور شوپن ہار۔میں نے اکثر شاعری میںبھی پناہ ڈھونڈی۔ان دوناموں میں ایک یکسر جرمنوں جیسے نام ولیم شیکسپیئر کا بھی اضافہ کرنا چاہوں گا۔
کبھی پہلے میری دلچسپی الہیات میں بھی رہی۔لیکن اس حیران کن شعبے (اور عیسائی عقیدے) سے مجھے شوپن ہار نے اپنے سیدھے سادھے دلائل کی مددسے، اور شیکسپیئر اور برہمز نے اپنی دنیائوں کے لامحدود تنوع کے ذریعے منحرف کیا۔ میں ایک ایسے گروہ کا تصور کرتا ہوں جو حیرت و استعجاب میں گم، شکرگزاری اورعاجزی کے ساتھ کپکپا تے ہوئے، ان اخلاص مندخالقین کے کسی شہ پارے کے سحر میں گرفتار ہے۔ وہ یہ جان لے کہ میں بھی انھی کی طرح کبھی اسی سحر کا شکار ہوا تھا، میں ایک مکروہ انسان۔
نٹشے اور سپنگلر میری زندگی میں ۱۹۲۷ء کے قریب وارد ہوئے۔ اٹھارویں صدی کے ایک مصنف نے لکھا ہے کہ کوئی مصنف کسی بات کے لیے اپنے ہم عصروں کے زیر بار احسان نہیں ہونا چاہتا۔ خود کو ایسے ہی ایک اثر سے آزادکرنے کے لیے، جو مجھے بہت گراں محسوس ہوتا تھا، میں نے ایک مضمون ’’Abrechnung mit spendgler‘‘ کے عنوان سے لکھا جس میں یہ وضاحت کی کہ وہ انتہائی غیر مبہم ادبی شاہکار جس کی خصوصیات کو مصنف نے فاؤسٹ کی خوبیوں کے ہم پلہ قرار دیا،وہ گوئٹے کا متفرق ناٹک نہیں، بلکہ ایک نظم ’De rerum natura‘‘ ہے جو بیس صدیاں قبل تخلیق ہوئی۔(دیگر اقوام سادہ لوحی کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں، اپنے آپ میں رہتے ہوئے، اور اپنے لیے جیتے ہوئے، جیسے معدنیات یا شہاب ثاقب۔لیکن جرمنی کائناتی آئینے جیسا ہے جس میں سبھی کچھ منعکس ہوتا ہے، دنیا کا اجتماعی شعوربھی۔ گوئٹے اس عالم گیر مذہبی ہم آہنگی کی مثال ہے۔ میں اس کی مذمت نہیں کرتا لیکن مجھے اس میں سپنگلر کے نظریے والا فاؤسٹ جیسا انسان دکھائی نہیں دیتا۔) تاہممیں نے تاریخ کے اس فلسفی کی اخلاص مندی، اور اس کی انتہائی جرمن اور عسکری روح کو خراج تحسین پیش کیا۔ ۱۹۲۹ء میںمیں نے’پارٹی‘ میں شمولیت اختیار کی۔
میں اپنی تربیت کے برسوں کے متعلق کچھ لکھوںگا۔ وہ دوسروں کی نسبت میرے لیے کہیں زیادہ کٹھن تھے۔ کیوں کہ اگرچہ میں کم ہمت آدمی نہیں ہوں، لیکن تشدد کے ذریعے مجھے پسپاکیا گیا۔ میں سمجھ گیا کہ ہم ایک نئے دور کی دہلیز پر کھڑے تھے، اور یہ کہ یہ دور اسلام اور عیسائیت کے ابتدائی زمانوں کی طرح ایک نئی قسم کے انسان کا متقاضی تھا۔ ذاتی طور پر میرے رفقاء مجھ سے نفرت کرتے تھے۔ بیکار ہی میں نے خود کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اس اعلی و ارفع مقصد کی خاطر، جس نے ہمیں یہاں اکٹھا کیا، ہمیںاپنی انفرادیت کی نفی کردینی چاہیے۔
ماہرین الہیات کا خیال ہے کہ اگر خدا کی توجہ ایک لحظہ کے لیے بھی اپنے دائیں ہاتھ سے بھٹک جائے جو ان الفاظ کو رقم کررہا ہے، تو یہ ہاتھ عدم کے منطقے میں داخل ہو جائے۔ جیسے کوئی شے بے چمک آگ سے جل کر بھسم ہو جائے۔ میں کہتا ہوں کہ بغیر جواز کے کوئی شے موجود نہیں، نہ کوئی پانی کے گلاس کا مزہ لے سکتا، نہ روٹی کا ایک ٹکڑا توڑ سکتا ہے۔ البتہ ہر فرد کے لیے یہ جواز مختلف ہوتا ہے۔ میں نے حونین جنگ کا انتظار کیا جس نے ہمارے عقیدے کو ثبوت مہیا کرنا تھا۔ میرے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ میں ان جنگوں میں بطور فوجی شامل ہوں۔ کبھی میں خوف زدہ تھاکہ کہیںانگریزی اور روسی بزدلی کی مثال ہمیں گمراہ نہ کردے۔ لیکن اسے اتفاق کہیے یا تقدیر کا کرشمہ کہ اس نے میرے مستقبل کے بارے میں ایک مختلف فیصلہ کیا۔
۱۹۳۹ء میں یکم مارچ کی رات ٹلسٹ میں کچھ گڑبڑکے آثار پیدا ہوئے جس کی خبر اخبارات میں شائع نہیں ہوئی۔ یہودیوں کی عبادت گاہ کی عقبی گلی میں دو گولیوں نے میری ٹانگ چھلنی کردی جس کے نتیجے میںاسے قطع کرنا ضروری ہوگیا۔ (کہا گیا تھا کہ زخم بہت سنگین تھا۔مرتب کا نوٹ)چند دنوں بعد ہماری فوجیں بوہیمیا میں داخل ہوئیں۔ جب نقاروں نے ان کی آمد کا اعلان کیا تو میں ایک خاموش ہسپتال میں لیٹا خود کو شوپن ہار کے فلسفہ میں غرق اور فراموش کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ ایک جسیم اور نرم و گداز بلی، میری بے ثمر منزل کے استعارے کے طور پر کھڑکی کی دہلیز پر سو رہی تھی۔
میں نے ’Parerga und Paralipomena‘ کی پہلی جلد میں پھر سے پڑھا کہ پیدائش کے لمحے سے موت کی ساعت تک انسان پر جو کچھ بیتتا ہے، وہ خود اسی کا متعین کردہ ہوتا ہے۔اس لیے ہر کوتاہی ارادی ہوتی ہے، ہراتفاقی صورت حال، ہر ناکامی ایک پراسرار کامیابی، اورہر موت ایک خودکشی ہوتی ہے۔ اس خیال سے بڑھ کر ڈھارس اور کس شے سے ملے گی کہ ہم اپنی بدبختیوں کا خود انتخاب کرتے ہیں۔ کہ ذاتی فلسفہ غایات ایک مخفی نظام کا انکشاف کرتااور انوکھے انداز میں الوہیت سے ہمارے تعلق کو الجھاتا ہے۔
(میں بے کار ہی یہ سوال کیاکہ)کس غیر معلوم ارادے نے اس سہ پہر مجھے مجبور کیا کہ میں ان گولیوں کو قبول کروں اور ٹانگ قطع کراؤں۔ بے شک جنگ کے خوف سے تو نہیں۔اتنا میں جانتا ہوں۔ کوئی اس سے بڑی وجہ۔ بالاآخر مجھے یقین ہوگیا کہ میں نے اسے پالیا۔ مذہب کے لیے قربان ہو جانا سہل ہے بنسبت صحیح طور پر اس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے۔ ایفسس میں جنگلی درندوں سے جنگ اتنی کٹھن نہیں ہے (ہزاروں غیر معلوم شہداء نے ایسا کیا) جتنا عیسیٰ مسیح کا خادم پال بننا۔ پوری زندگی گزارنے کی نسبت محض ایک فیصلہ کن اقدام زیادہ سہل ہوتا ہے۔ جنگ اور عظمت سہل ہوتی ہیں۔ نپولین کی جنگجوانہ مہمات سے کہیں زیادہ دشوار راسکو لنیکوف کی مہم تھی۔ ۱۹۴۱ء کی فروری کی سات تاریخ کو مجھے ٹارنووٹز میں حراست کیمپ کا قائم مقام منتظم مقررکیا گیا۔
اس عہدے سے وابستہ فرائض کی انجام دہی خوشگوار نہیں تھی۔ لیکن میں نے کوئی خطا غفلت سے نہیں کی۔ بزدل مشکل حالات میںاپنی اصل ظاہر کرتا ہے۔ جب کہ رحم دل اور متقی انسان، قید خانوں میں اور دوسروں کی اذیت میں اپنی سزا پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلاشبہ نازی ازم ایک اخلاقی تحریک تھی،اخلاقی طور پر دیوالیہ انسانیت کی تطہیرکے لیے تاکہ اسے نیا بنایا جا سکے۔جنگ میں کپتانوں اور انسانی چیخم دھاڑ کے ہنگام میں ایسی تبدیلی عام بات ہے۔ لیکن ایک آفت زدہ عقوبت خانہ میں معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے، جہاں فریب کن مکار جذبہ ترحم اپنے روایتی گداز کے ساتھ ہمیں ترغیب دیتا ہے۔ ایسے ہی میں نے یہ لفظ ’ترحم‘ استعمال نہیں کیا۔زرتشت کے انسان کامل کے نزدیک رحم ایک گناہ کبیرہ ہے۔ (میں اعتراف کرتا ہوں کہ)خود میں نے ایسا ہی کیا جب انھوں نے ممتاز شاعر ڈیوڈ یروشلم کو بریسلا سے یہاں بھیجا۔
وہ پچاس کے پیٹے میں تھا۔ دنیاوی حوالے سے غریب، راندہ درگاہ، ٹھکرایا ہوا اور ملامت زدہ۔ اس نے اپنے فن کو مسرت کی حمد و ثناء کے لیے وقف کیاتھا۔ مجھے یاد ہے البرٹ سورجل نے اپنی کتاب ’’Dichtung der Zeit‘‘ میں ا س کا موازنہ وٹمین سے کیا تھا۔ یہ موازنہ درست نہیں تھا۔ وٹمین کائنات کی سطحی، تجریدی اور تقریباً بے نیازانہ انداز میں ستائش کرتا ہے۔ یروشلم محتاط اور یکسر درست محبت کے ساتھ ہر معمولی شے سے حظ حاصل کرتا ہے۔ وہ اعداد وشمار اور فہرستوں کے مغالطے کا شکار نہیں ہوتا۔
میں ا س کی عظیم نظم ’’تسی یانگ، شیروں کا مصور‘‘ میں سے اب بھی کئی شش رکنی بحر کے اشعار یاد کرسکتا ہوں۔یہ نظم شیروں کی کثرت سے دھاری دار اور خاموش اور آڑے ترچھے شیروں کے بوجھ تلے دبی اور الجھی ہوئی ہے۔ نہ ہی میں خود کلامی کے انداز میںلکھی نظم ’’روزن کرانز فرشتے سے ہم کلام ہوتا ہے‘‘ کو کبھی فراموش کرپائوںگا جس میں سولہویں صدی کے لندن کا ایک بیاج خور بستر مرگ پر اعتراف جرم کے ذریعے بار معصیت سے چھٹکارا پانے کی بے کار کوشش کرتا ہے، کبھی یہ گمان کیے بغیر کہ اس کی زندگی کا مخفی جواز اپنے گاہکوں میں سے ایک گاہک(جسے اس نے بس ایک ہی مرتبہ دیکھا اور پھراسے فراموش کردیا)کو شائیلاک کے کردار کا خاکہ سجھانا تھا۔
یاد رہ جانے والی آنکھوں، زردی مائل رنگت اور قریب مکمل سیاہ داڑھی والا ڈیوڈ یروشلم، ہسپانوی یہودیوں کا ایک نمونہ تھا حالاں کہ اس کا تعلق بدنصیب اور قابل نفرت ’اشکنازم‘ سے تھا۔ میرا رویہ اس کے ساتھ سنگدلانہ تھا۔ نہ جذبہ ترحم اور نہ ہی اس کی عظمت مجھے نرم خوئی پر مائل کرسکی۔ میں اس نکتہ کوڈیوڈ یروشلم سے ملنے سے کئی سال پہلے ہی پا چکا تھا کہ دنیا کی ہر شے میںایک ممکنہ جہنم کا تخم موجود ہوسکتا ہے۔ ایک چہرہ، ایک لفظ، ایک قطب نما، سگریٹ کا کوئی اشتہار انسان کو پاگل بناسکتا ہے، اگر وہ اسے فراموش کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو۔ کیا ایساشخص پاگل نہیں ہوجائے گااگروہ مستقلاً ہنگری کے نقشے کو تصور کرتا رہے ؟ میں نے اسی مفروضے کا اپنے کیمپ کے تادیبی قوانین کے ذریعے اطلاق کافیصلہ کیا۔ اور۔۔۔۔۔(یہاںیہ ضروری ہے کہ چند سطریں حذف کردی جائیں۔مرتب کا نوٹ)
۱۹۴۲ء کے اختتام تک یروشلم اپنا ذہنی توازن کھو چکا تھا۔ ۱۹۴۳ء میں مارچ کی پہلی تاریخ کو اس نے اپنے آپ کو قتل کرلیا۔(نہ کسی فائل میں اور نہ سورجل کی کتاب ہی میںہمیں یروشلم کے نام کا حوالہ ملا۔ نہ ہی اس کا ذکر جرمن ادب کی تاریخوں ہی میں موجودہے۔ نہ ہی مجھے اس بات پر یقین ہے کہ وہ کوئی فرضی کردار تھا۔ بہت سے یہودی دانشوروں کو اوٹو ڈیٹرچ زر لندے کے حکم پر ٹارنووٹز میں تشدد کا نشانہ بنایا گیاجن میں پیانو نواز ایما روزن ویگ بھی شامل تھی۔ ڈیوڈ یروشلم شاید بہت سے افراد کا استعارہ تھا۔ہمیں بتایا گیا کہ وہ یکم مارچ ۱۹۴۳کو فوت ہوا۔ راوی ٹلسٹ میں زخمی ہوا۔ مرتب کا نوٹ)
میں نہیں جانتا کہ یروشلم اس بات کو سمجھا بھی تھا کہ نہیں، کہ میرا اس کو تباہ کرنا، میرے اپنے جذبہ رحم کو تباہ کرنے کے مترادف تھا۔ میری نظر میں وہ ایک فرد نہیں تھا، نہ محض ایک یہودی۔ وہ میری روح کے قابل نفرین منطقہ کا استعارہ تھا۔ میں اس کے ساتھ اذیت میں مبتلا رہا۔ اس کے ساتھ ہی مر گیا اور کسی طور اس کے ساتھ کہیں گم ہوگیا۔اس لیے میں اتنا کٹھور تھا۔
اس دوران ہم جنگ میں فتح کے مسرور ترین دنوں اور راتوں میں مست رہے۔ اس فضا میں، جس میں ہم سانس لے رہے تھے،ایک خاص جذبہ موجود تھا، جو محبت جیسا تھا۔جیسے اچانک سمندر کہیں قریب ہی ہو، ہمارے دل یوںحیرت اور انبساط سے دھڑکتے تھے۔اس برسوں میںہر شے مختلف تھی حتی کہ ہمارے خوابوں کا ذائقہ بھی۔ (شاید میں کبھی مکمل خوشی نہیں پاسکا لیکن یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ بدبختی کے لیے گمشدہ بہشتوں کی ضرورت ہوتی ہے)
کوئی فرد ایسا نہیں ہے جسے بھرپور زندگی کی خواہش نہ ہو یعنی ان تمام تجربات کی جن سے وہ حظ اٹھا سکے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جسے یہ کھٹکا نہ ہو کہ اس کی لامحدود میراث کاکچھ حصہ اس سے چھن جائے گا۔لیکن یہ درست ہے کہ میری نسل نے تجربے کی انتہائوں کا حظ اٹھایا، کیوںکہ پہلے اس سے ہمیں عظمت ملی اور پھر شکست۔
۱۹۴۲ء کی اکتوبر یا نومبر میں میرا بھائی فریڈرک مصری صحرائوں میں ایل المین کی دوسری جنگ میں کھیت رہا۔ چند ماہ بعد ایک ہوائی بمباری کے نتیجے میں ہمارا خاندانی مکان تباہ ہوگیاجہاں میں پیدا ہوا تھا۔ ایک دوسری بمباری نے ۱۹۴۳ء کے اختتام پر میری تجربہ گاہ کو مسمار کر دیا۔ وسیع و عریض براعظموں سے ہراساں، رائح سوئم مر رہا تھا۔ وہ تمام انسانیت سے برسر پیکار تھا اور تمام انسانیت اس کے خلاف۔
تب ایک بہت عجیب واقعہ ہواجس کے بارے میں اب مجھے یقین ہوا کہ میں اسے سمجھ پایا ہوں۔مجھے خود پر یقین تھا کہ میں اپنے غصے کا جام خالی کرنے کے اہل تھالیکن اس کی تلچھٹ میں مجھے ایک غیر متوقع ذائقہ ملا، مسرت کا پراسرار، دہشت ناک ذائقہ۔ میں نے اس کی بہت سی وضاحتیں سوچیںلیکن کوئی ایک بھی باعث تشفی نہیں تھی۔ میں نے سوچا کہ میں شکست سے خوش تھا کیوں کہ اندر ہی اندر میں اپنے احساس گناہ سے آگاہ تھا۔ صرف سزا ہی مجھے اس احساس سے نجات دلا سکتی ہے۔تب میں نے سوچا میںاس شکست سے اس لیے بھی خوش تھا کیوںکہ یہ وقوع پذیر ہو چکی تھی کیوںکہ یہ ناقابل تنسیخ انداز میں ان تمام وقوعات سے جڑی ہوئی تھی، جو ہو چکے ہیں، جو ہو چکے تھے اور جوہوں گے، کیوں کہ ان میں سے کسی ایک حقیقی وقوعہ کو برا کہنا یا اس پر تاسف کا اظہار کرنا، کائناتی تنظیم کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔جیسا کہ میں نے کہا کہ میں ان توضیحات سے خود کو بہلاتا رہا۔ حتی کہ آخر اصل وجہ دریافت ہوگئی۔
کہا جاتا ہے کہ ہر شخص یا تو ارسطو کے پیروکار کے طورپر پیدا ہوتا ہے یا افلاطون کے۔ یہ بات کچھ یوں ہے جیسے کہا جائے کوئی مجرد دلیل ایسی نہیں ہے جس کی ایک نقل ارسطو یا افلاطون کے مباحث میں پہلے سے موجودنہ ہو۔ صدیوں اور خطوں میں، نام، چہرے اورلہجے بدل جاتے ہیںلیکن ازلی حریف نہیں بدلتے۔ یوں ہی اقوام عالم کی تاریخ میں بھی ایسے پراسرارتسلسل کے آثار ملتے ہیں۔
آرمینس نے دلدلی علاقے میں وارس کے فوجی دستوں کا قتل عام کیا۔ ان کے نرخرے کاٹتے ہوئے انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ جرمنی کی بادشاہت کا پیش رو تھا۔ بائبل کا مترجم لوتھر یہ گمان نہ کرسکا کہ اس کا مقصد ایسے لوگوں کو آگے بڑھانا تھا جنھوں نے بالآخر بائبل کو ہمیشہ کے لیے تباہ کردینا تھا۔ کرسٹوف زرلندے ۱۷۵۸ء میں روسیوں کی گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ لیکن ایک طور سے وہ ۱۹۱۴ء کی فتوحات کے لیے راہ ہموار کررہا تھا۔ ہٹلرکو یقین تھا کہ وہ ایک قوم کے لیے جنگ لڑ رہاتھا لیکن دراصل وہ سبھی اقوام کے لیے برسرپیکار تھا، ان کے لیے بھی جن سے وہ نفرت کرتا تھا اور جن پر ا س نے چڑھائی کی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کی ’میں‘ اس حقیقت سے لاعلم تھی۔لیکن اس کا خون اور اس کا ارادہ البتہ اس سے باخبر تھے۔ دنیا یہودیت اور یہودیت کے مرض کے باعث جو یسوع مسیح کامذہب تھا، مری جارہی تھی۔ہم نے اسے تشدد اور تلوار کے عقیدے کی تعلیم دی۔
اسی تلوار نے ہمیں ذبح کیا۔ ہماری مثال اس ساحر جیسی ہے جس نے ایک بھول بھلیاں تشکیل دیں اور پھر اسے زندگی کے آخری لمحے تک ا س میں بھٹکنے رہنے کی سزا دی گئی۔ یا پھر ڈیوڈ جیسی سزا جو ایک غیر معروف انسان کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے موت کی سزاسناتا ہے اور پھر اس پر وحی نازل ہوتی ہے کہ تم وہی شخص ہو۔
بہت سے بت ایسے ہیں جنھیں تم کو ایک نیا نظام تشکیل دینے کے لیے توڑنا پڑے گا۔ اب ہم جانتے ہیں کہ جرمنی بھی انھی بتوںمیں سے ایک تھا۔ ہم نے اپنی زندگیوں سے بڑھ کر کچھ قربان کیا تھا۔ہم نے اپنی محبوب قوم کی قسمت کی بھینٹ چڑھائی تھی۔ دوسروں کوملامت کرنے اور رونے دو۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہماری تقدیر مدوّر اور کامل ہے۔
اب دنیا میں ایک بے کیف دور جاری ہے۔ ہم نے خود ہی اسے متشکل کیا، ہم جو اسی کا شکار بھی ہیں۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ انگلستان ایک ہتھوڑا اور ہم سندان ہیں۔ جس بات سے فرق پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ، غلامانہ مسیحی بزدلی کے بجائے تشدد کا دور دورا ںہے۔
اگر فتح، ناانصافی اورمسرت جرمنی کے مقدر میں نہیں ہیں تو دوسری قومیں ان سے محروم کیوں رہیں۔بہشت باقی رہنی چاہیے، بھلے ہی ہمارا مقام جہنم میں کیوں نہ ہو۔
میں آئینے میں خود کو دیکھتا ہوںیہ جاننے کے لیے کہ آخر میں کون ہوں؟ یہ جاننے کے لیے کہ کیسے اگلے چند گھنٹوں میںمیرا رویہ کیا ہو گا، جب میں موت کے روبرو ہوں گا؟ میرا جسم،ہوسکتا ہے خوف زدہ ہو لیکن میں نہیں ہوں۔

Related posts

Leave a Comment