حبیب جالب ۔۔۔ اِس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے

اِس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے یہ ہنستا ہوا چاند ، یہ پُر نور ستارے تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غمِ جاناں کب تک کوئی اُلجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

Read More

راغب مراد آبادی (چند جہتیں): اکرم کنجاہی ۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔ راغب مراد آبادی (چند جہتیں) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکرم کنجاہی سے خوش گوار تعارف ان کی شاعری اور ماہ نامہ غنیمت کے حوالہ سے توایک عرصہ سے ہے ، ان کے کچھ مضامین بھی زیرِمطالعہ رہے لیکن راغب صاحب پر ان کی یہ تصنیف میرے علم میں نہ تھی۔ اس کا پہلا ایڈیشن فروری ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا اور اب دوسرا ایڈیشن جنوری ۲۰۲۰ء میں رنگِ ادب پبلی کیشنز ، کراچی سے اشاعت پذیر ہواہے۔ اکرم کنجاہی نے ’عرضِ مصنف‘ میں اس کتاب کو راغب شناسی کے حوالہ سے…

Read More

حبیب جالب

اے دل! وہ تمہارے لیے بے تاب کہاں ہیں دھندلائے ہوئے خواب ہیں، احباب کہاں ہیں

Read More

حبیب جالب ۔۔۔ دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں بیت گیا ساون کا مہینہ، موسم نے نظریں بدلیں لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا، جن کے لیے بدنام ہوئے آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک…

Read More

اربابِ ذوق ۔۔۔ حبیب جالب

اربابِ ذوق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھر سے نکلے کار میں بیٹھے، کار سے نکلے دفتر پہنچے دن بھر دفتر کو ٹرخایا شام کو جب اندھیارا چھایا محفل میں ساغر چھلکایا پھول پھول بھنورا لہرایا، رات کے ایک بجے گھر پہنچے گھر سے نکلے کار میں بیٹھے، کار سے نکلے دفتر پہنچے غالب سے ہے ان کو رغبت میر سے بھی کرتے ہیں الفت اور تخلص بھی ہے عظمت گھر اقبال کے کھانے دعوت چھوٹی عمر میں اکثر پہنچے گھر سے نکلے کار میں بیٹھے، کار سے نکلے دفتر پہنچےحلقے میں اتوار منانا…

Read More

نیلو ۔۔۔۔۔ حبیب جالب

نیلو ۔۔۔ تو کہ ناوا قفِ آدابِ شہنشاہی تھی رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے تجھ کو انکار کی جرّات جو ہوئی تو کیونکر سایہءشاہ میں اسطرح جیا جاتا ہے؟ اہلِ ثروت کی یہ تجویز ہے، سر کش لڑکی! تجھ کو دربار میں کوڑوں سے نچایا جائے ناچتے ناچتے ہو جاے جو پائل خاموش پھر نہ تازیست تجھے ہوش میں لایا جاے لوگ اس منظرِ جانکاہ کو جب دیکھیں گے اور بڑھ جاے گا کچھ سطوتِ شاہی کا جلال تیرے انجام سے ہر شخص کو عبرت ہوگی سر…

Read More