راغب مراد آبادی (چند جہتیں): اکرم کنجاہی ۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔

راغب مراد آبادی (چند جہتیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکرم کنجاہی سے خوش گوار تعارف ان کی شاعری اور ماہ نامہ غنیمت کے حوالہ سے توایک عرصہ سے ہے ، ان کے کچھ مضامین بھی زیرِمطالعہ رہے لیکن راغب صاحب پر ان کی یہ تصنیف میرے علم میں نہ تھی۔ اس کا پہلا ایڈیشن فروری ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا اور اب دوسرا ایڈیشن جنوری ۲۰۲۰ء میں رنگِ ادب پبلی کیشنز ، کراچی سے اشاعت پذیر ہواہے۔ اکرم کنجاہی نے ’عرضِ مصنف‘ میں اس کتاب کو راغب شناسی کے حوالہ سے پہلا قطرہ قرار دیا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ انھوں نے حقِ شاگردی و حقِ تحقیق و تنقید خوب خوب ادا کیا ہے۔ 
کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب ’ تذکرۂ جگر و راغب‘ میں اکرم کنجاہی نے جگر کو ’ شہنشاہِ غزل‘ تو راغب کو ’ شہنشاہِ رباعی‘ قرار دیا ہے۔جگر و راغب کے فکری و فنی اختلافات و اشتراک پر بھرپور گفتگو اس باب کو کارآمد بناتی ہے۔مثلاً جگر، بقول محمود خان جامعی عام طور پر کتابوں کے مطالعے سے گھبراتے تھے، فرمایش پر فی البدیہ شعر کہہ ہی نہیں سکتے تھے۔ مشاعروں میں طرح کو مقابلے کا امتحان یا اکھاڑا قرار دیتے تھے،اس سے گریز برتتے تھے۔ دوسری طرف راغب جوش کے نقطہ نظر’’ تخلیق کار کو قاموس العلم ہونا چاہیے‘‘ کے قایل تھے۔فی البدیہہ شعر کہنے میں ید ِطولیٰ رکھتے تھے۔دونوں کی شاعری اور طبع میں مماثلت رجائی پہلو کی موجودی ہے۔ دونوں بدصورتی سے خوبصورتی، غم سے خوشی ، تاریکی سے روشنی، نفی سے اثبات کشید کر لیتے ہیں۔

دوسرا باب راغب مراد آبادی کے شعری سفر کا احاطہ کرتا ہے۔ فاضل مصنف نے راغب کے شعری سفر کو پانچ اَدوار (۱۹۳۰ء تا ۱۹۳۹ء، ۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۷ء، ۱۹۴۷ء تا ۱۹۶۰ء، ۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۵ء، ۱۹۷۵ء تا حال) میں تقسیم کیا ہے۔دورِ اول کی شاعری غزل کو محیط ہے جس میں رسمی و رواجی مضامین زیادہ ہیں۔ المیہ اور حزنیہ عنصر غالب ہے۔ دوسرے دور میں راغب کی مولانا ظفر علی خان سے قربت، مسلم لیگ میں شمولیت اور تحریکِ پاکستان میں عملی شرکت ان کی شاعری میں ایک نمایاں تبدیلی لائی۔ وہ باقاعدہ صحافت سے وابستہ ہوئے۔ گاندھی، ڈیسائی، جواہر، پٹیل، پنت، خضر حیات خان، حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی بصیرت و فکر پر تنقید کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حوالہ سے ایک خوش گوار رجائیت اور قائداعظم کی عظمت و رفعت اور بلندیِ کردار کے گیت اس دور کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ اس دور میں ان کے ہاں رباعیات بھی کثیر تعداد میں ملتی ہیں۔ تیسرے دور میں ان کی تخلیقات میں فکرِ اقبال سے استفادہ نمایاں ہے۔ اس دور کی نمایاں تخلیقات آزادی، ہمارا کشمیر، نذر شہدائے کربلا ہیں۔ جوش نے غزل کی مخالفت شروع کی تو راغب غزل کی حمایت میں ڈٹ گئے۔ نئے موضوعات کی تلاش اس دور کا اختصاص ہے۔ چوتھے دور کی شاعری میں سیاسی حالات کی گرانی، عدم استحکام، مذہبی منافرت، معاشی ناہمواری، معاشی تضادات، مستقبل کے حوالے سے وسوسے اور ایک انجانا خوف ۔۔۔ لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ ایک سچے، کھرے اور مخلص محب وطن کی آواز ۔۔۔ وہ حالات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔ پانچویں دور کی شاعری میں گہرائی کا عنصرنمایاں ہے۔ اظہار و ابلاغ کے درمیان فاصلوں کو پاٹنے کی کوشش اس دور میں غالب ہے۔ ایہام گوئی سے اجتناب ملتا ہے۔ مشاہداتی قوت اور طبعی فکر و نظر کی حدود سے آگے کے مضامین کے ساتھ ساتھ ملکی و بین الاقوامی سیاسی و معاشی و معاشرتی مسائل ان کی شاعری کے نمایاں موضوعات ٹھیرتے ہیں۔ ’راغب بطور رباعی گو‘، ’ منظوم سفر نامے‘، ’فن اور شخصیت‘، ’مختصر سوانح‘ اور’ اکتسابِ فیض‘ اسی باب کے ذیلی عنوانات ہیں۔راغب فی البدیہہ رباعی کے حوالے سے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم رانا کے بقول: ’’وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے پنجابی رباعی میں بھی اوزانِ رباعی کی پابندی کی ہے۔‘‘انھوں نے رباعی کے تمام اوزان میں طبع آزمائی کی ہے۔ ’اوویشن ٹو چائنا‘، ’نقوشِ امریکہ‘ اور جادۂ رحمت (سفر نامۂ ارضِ حجازِ مقدس) منظوم سفر نامے ہیں۔ نقوشِ امریکہ ۱۵۸رباعیات جبکہ جادۂ رحمت چار سو ( ۴۰۰) رباعیات پر مشتمل ہے۔

کتاب کے تیسرے باب ’’چند شعری محاسن‘‘ کے ذیلی عنوانات ’راغب کا رنگ سخن‘، قادرالکلامی‘اور ’بدیہہ گوئی‘ ہیں۔ بقول اکرم کنجاہی:راغب کی شخصیت اور شاعری میں دھیما پن ہے، لہجے میں نرمی اور شائستگی ۔۔۔ کسی کی غیبت نہیں کرتے۔ اپنی ذات کو بہت کم موضوع گفتگو بناتے ہیں۔راغب نے صفی لکھنوی، سید علی اختر، یگانہ، مولانا ظفر علی خان، مرزا خادم ہوشیارپوری سے استفادہ کیا۔ بقول اکرم کنجاہی:’’ راغب شاعری کا شالامار ہیں، جس کے کئی تختے ہیں، کسی پر رباعیات کے گل ہائے رنگ رنگ ذوقِ سلیم کی تسکین کا سامان کرتے ہیں، کسی پر بدیہہ گوئی کے فوارے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ زود گو طبیعت کی جولانی اور سبزۂ نورُستہ ہر سمت بچھا ہوا ہے۔ کہیں فن کی پختہ راہداریاں ہیں، کہیں غزلیات کی بارہ دریاں حسنِ تعمیر کا نمونہ بنی ہوئی ہیں، کسی پر اشجارِ نعت کی برکتیں سایہ کیے ہوئے ہیں، شیریں ثمر بانٹ رہی ہیں۔‘‘ مشاعروں میں فی البدیہہ خطبہء صدارت اور منظوم نظامت ۔۔۔ تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی، زیادہ سے زیادہ اوزان و بحور میں لکھنا، لفظی صنعتوں کا استعمال ۔۔۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں :’’ راغب فنِ شعر میں یکتا اور زبان و بیان پر ایسے قادر کہ کم ہی ایسے ہوں گے‘‘۔ ان کی زود گوئی کے حوالہ سے علامہ ماہرالقادری کا ایک قطع دیکھیے:

نکتہ سنج و ذہین ہیں راغب
علم کا اسکرین ہیں راغب
شعر گوئی کی، شعر سازی کی
آٹو میٹک مشین ہیں راغب

چوتھا باب ’’سماجی، علمی اورادبی خدمات ‘‘ہے۔قیام پاکستان کے بعد انھوں نے کراچی میں پہلی ادبی تنظیم ’اردو مجلس‘ کی داغ بیل ڈالی۔ اقبال اکیڈمی کے رکن رہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد مختلف ادبی و علمی جرائد سے وابستہ رہے۔ ۲۷ کتب تخلیق کر چکے ہیں۔ ۱۵ کتب اشاعت کی منتظر ہیں۔ ان کا پنجابی مجموعہ ٔ  کلام ’’تاریاں دی لو‘‘ خاصے کی چیز ہے۔ ’’راغب مراد آبادی اکیڈمی‘‘ کے زیراہتمام مشاعروں کا انعقاد، کتب کی اشاعت، علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈز ۔۔۔ یتیموں اور بے سہارا بچوں کی امداد کے لیے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر تحریک ’’خدمت الناس‘‘ کی بنیاد رکھی۔ راغب کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے۔ چند نمایاں نام حبیب جالب، ضیاء الحق قاسمی، حکیم ناصر، اکرم کنجاہی، نجمہ خان ، شہزاد عالم شہزادہیں۔
پانچواں باب ’’اہم علمی و ادبی موضوعات‘‘ ہے۔ جس کے ذیلی ابوا ب کشمیر، نذر شہدائے کربلا، گلہائے عقیدت بحضور سرور کائنات ﷺ، حبِ انسانیت،پنجاب رنگ، تاریخ گوئی، راغب کی صحافتی شاعری، تحدید آبادی اور راغب، راغب کے ممدوح، تصوف، نونہال ادب، جمالیاتی شاعری، ادب برائے زندگی، محنت کی ریت، کپاس کی اوٹائی، زوال پذیر اقدار کا دکھ، عملیت پسندی اور جوش شناسی ہیں۔ان تمام موضوعات پر اشارات دیے جا سکتے ہیں لیکن ۔۔۔ محبین راغب کا بھی تو کوئی فرض بنتا ہے کہ نہیں۔ ۲۸۸ صفحات کی اس کتاب کا مطالعہ زیادہ عرصہ نہیں لیتا کہ مصنف کا طرز تحریر عام فہم اور دلچسپی کا عنصر سمیٹے ہوئے ہے۔ کتاب کے آخر میں راغب مراد آبادی اور اکرم کنجاہی کے سوانحی خاکے ہیں۔ اچھا ہوتا اگر اکرم کنجاہی دوسرے ایڈیشن میں تھوڑی ترمیم کرتے اور راغب صاحب کی تاریخ وفات (۲۰۱۱ء) بھی درج کر دیتے۔ چند اشعار اور رباعیات ملاحظہ فرمائیے:

آج اپنے بھی گریزاں ہیں، عجب قہر ہے یہ
پھر بھی کہنا یہی پڑتا ہے، مرا شہر ہے یہ

سائے کا بھی ہم نے اگر احسان لیا ہے
گھر کس کا ہے دیوار سے پہچان لیا ہے

پھر رہا ہوں اسی امید پہ مارا مارا
اس بڑے شہر میں اپنا بھی نظر آئے کوئی
۔۔۔
پنجاب دا رَنگ ڈھنگ کجھ ہور اِی اے
دلی کجھ ہور، جھنگ کجھ ہور اِی اے
اُردو دَا وِی رنگ اِک توں اِک اے راغب
مٹھی بولی دا رنگ کجھ ہور اِی اے
۔۔۔
مَیں کون ہوں، مَیں کیا ہوں، کہاں جان سکا
اور غیر بھی اپنے کو کہاں جان سکا
چہرے پہ ہے اس قدر مہ و سال کی گرد
اپنے ہی خد و خال نہ پہچان سکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۶ اپریل ۲۰۲۰ء

Related posts

Leave a Comment