تنقید، منطق، سائنس … ڈاکٹر سلیم اختر

ادب کی اپنی تہذیب ہوتی ہے جس کا ایک جزو کتاب کا کلچر ہوتا ہے جب کہ تنقید ادب کی تہذیب کے تقاضے مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق کی خوشبو عام کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اس ضمن میں یہ امر بھی واضح رہے کہ تخلیق معاشرہ کی ادبی تہذیب کی مظہر، ترجمان اور سمت نما ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ٹیبوز، روحانی اقدار، مذہبی قواعد، سیاسی منظر نامہ، سماجی روےے، عمومی صورتِ حال، اقتصادی امور یہ سب بھی کسی نہ کسی صورت میں تخلیق پر منفی یا مثبت طور پر باالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ ادھر تخلیق کار مخصوص ہیئت کے معاشرہ کا فرد ہوتا ہے۔ وہ معاشرہ اور اس کے ٹیبوز کو پسند کرے یا نہ کرے مگر وہ معاشرہ میں زیست کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
اس صورتِ حال کے بارے میں تخلیق کار کے دو ممکنہ ردِ عمل ہوسکتے ہیں (۱) صورتِ حال کو تسلیم کرکے ہم نوا ہوجانا۔ (۲) صورتِ حال کے خلاف ردِ عمل، غصہ، احتجاج اور بغاوت۔ اس ضمن میں ردِ عمل کے انداز و اسالیب میں خاصہ تنوع پایا جاتا ہے اور پھر ان اہلِ قلم کی بھی کمی نہیں جو کسی معاشرہ VSقلم کے قائل ہی نہیں یعنی تخلیق برائے مقصد کے قائل نہیں ہوتے اور ادب سے صرف جمالیاتی حظ حاصل کرنا کافی سمجھتے ہیں۔
بحیثیت ادیب کی ادبی بصیرت اور اس سے جنم لینے والی، ناپسند ترجیحات بلکہ تعصبات تک شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تنقید ادب کی تہذیب کے تناظر میں عصری صورتِ حال کے محدّب شیشہ میں سے تخلیقات کی چھان پھٹک کرتے ہوئے کتاب کلچر کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔
اس ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ مروج کلچر اور کتاب کلچر ریل کی پٹریوں کی مانند متوازی نہیں ہوتے بلکہ عمل اور ردِ عمل کی صورت میں باہم اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ معاشرہ کا کلچر توانا ہو تو تخلیق اس کا آئینہ ثابت ہوگی برعکس صورت میں یعنی کلچر توانائی سے عاری ہو، فکری اعتبار سے تہی دست ہو، زندگی تصورات کے مقابلہ میں ماضی پرستی، مردہ کلیثے اقوال زریں بن جائیں اورماضی پرستی کا جواز مردہ روایات قرار پا جائیں تب تخلیق Distorting Mirror میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس لئے Status Quo کو کبھی بھی پسند نہیں کیا گیا جبکہ روایت پرست معاشرہ کے حامی اہلِ قلم ماضی کا کلٹ بنا کر فکرِ نو، اجتہاد، جدت پسندی، تغیر و تبدیلی کی مخالفت کرکے اپنی دانست میں معاشرہ کو پاک صاف رکھتے ہیں یہ بھول کر کہ بہتے پانی کے مقابلہ میں جوہڑ ہمیشہ گندا اور بدبودار ہی رہتا ہے اور وہ صورتِ حال ہوتی ہے جس میں تنقید، تخلیقات کے معیار بہتر کرتے ہوئے تخلیق کار کے لئے رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ ماضی میں یہ فریضہ صرف ترقی پسند ادب کی تحریک سے وابستہ ناقدین نے ادا کیا اس لیے کہ بلحاظِ مزاج وہ مارکسی تھے، تبدیلی اور بغاوت ان کا موٹو تھی مگر ترقی پسند مصنفین سے کہیں پہلے علامہ اقبال بھی یہ کہہ چکے ہیں:
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تنقید کے بارے میں یہ حقیقت ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ تنقید تخلیق کے بعد معرض وجود میں آتی ہے۔
تنقید کے ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ مختلف علوم کے زیرِ اثر تنقید کے مختلف رویوں، اسالیب بلکہ دبستانوں نے جنم لیا ہے جیسے مارکسی تنقید، عمرانی تنقید، نفسیاتی تنقید، جمالیاتی تنقید، تاریخی تنقید، رومانی تنقید وغیرہ یا پھر ہر نوع اور نظریہ سازی سے عاری تشریحی تنقید۔ نقاد کسی بھی علمی تصور، نظریہ یا اسلوب نقد کا حامل ہوسکتا ہے لیکن نقاد کا تنقیدی عمل اس کے تنقیدی فیصلہ پر منتج ہوگا۔ یہ فیصلہ کبھی تخلیق کے حسن و قبح گنوانے کے مترادف ہوتا ہے تو کبھی جمالیاتی اوصاف پر روشنی ڈالتا ہے۔ کبھی کسی علمی نظریہ پر مبنی تنقیدی تصور (جیسے مارکسی، نفسیاتی، عمرانی) کی روشنی میں تخلیقات کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو کبھی صرف اشعار کی تشریح و توضیح ہوتی ہے۔ نقاد اپنے تنقیدی عمل کے لئے جس معیار، اساس، تصور اور فکر کو چاہے پسند کرکے اس سے اپنی کنڈیشننگ کرسکتا ہے لیکن ادب کی تہذیب نے جس تناظر کی تشکیل کی ہوتی ہے اسے ہر حالت میں ملحوظ رکھنا ہوگا۔ ورنہ پاﺅں زمین پر باآسانی نہ ٹکیں گے اور نقاد خلا میں بے وزنی کے عالم میں معلق رہے گا۔
جب تخلیق کار اظہار کے لئے کسی خاص صنف کو استعمال کرتا ہے تو پہلے اس کے اصول و ضوابط کا درس نہیں لیتا اور نہ ہی سبق کی مانند انہیں یاد کرتا ہے۔ وہ آمد، کیفیت، وجدان، الہام، جذب و جذبہ (جو لفظ بھی چاہیں استعمال کرسکتا ہے) کے زیرِ اثر مائل تخلیق ہوتا ہے اور بس۔ تخلیق کی تکمیل کے بعد نقاد کا کام شروع ہوتا ہے۔ تنقید کا عملInductionکے اصول کے مطابق ہوا ہوگا یعنی مختلف النوع تخلیقات کے تجزیاتی مطالعہ کے بعد ان میں سے ایسی مشترک خصوصیات اخذ کی گئی ہوں گی جنہیں اصول قرار دے کر ان کی روشنی میں صنف کے قواعد و ضوابط مدون کئے ہوں گے۔ Inductionکے اس عمل میں مروج علوم بھی مددگار ثابت ہوئے ہوں گے۔ یوں جب کچھ اصول طے پاگئے تو ان کی راہنمائی میں لفظ کے جمال، اسلوب کی جمالیات اور معنی کی تہہ داری کا مطالعہ ممکن ہوا ہوگا۔
تنقید کے عمل میں مددگار ثابت ہونے والے علوم کی کمی نہیں جبکہ مختلف تنقیدی رویوں سے مخصوص اصول و ضوابط میں خاصہ تنوع اور وسعت بھی ملتی ہے۔ ہمارے لئے آج اس ابتدائی صورتِ حال کا تصور ناممکن ہے جب Inductionکے زیرِ اثر تنقید نہیں ہورہی تھی۔ بیشتر نقاد آج بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر Inductionسے مشابہہ طریقہ اپناتے ہیں یعنی کلام، افسانہ، ناول کے مطالعہ کے بعد ان میں ایسے مشترک نکات کی تلاش جنہیں ”خصوصیات“ کا نام دے کر مقالہ قلم بند کیا جاتا ہے اور یہی وہ رویہ ہے جسے ”تجزیہ“ اور ”تجزیاتی مطالعہ“ قرار دیا جاتا ہے۔ ”علامہ اقبال کے کلام کی خصوصیات“ اور” مرزا غالب کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ“ جیسے مقالات اس ضمن میں بطور مثال پیش کئے جاسکتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس صورت کو Dedectiveقرار دیا جاسکتا ہے۔ یعنی پہلے سے متعین اصول و ضوابط کی درستی اور حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں معیار بنا کر ان کی روشنی میں تخلیقات کا مطالعہ۔ یہ صورت Inductionکے برعکس ہے کہ اصول و ضوابط تخلیق سے اخذ کرنے کے برعکس پہلے سے متعین، درست، تسلیم کردہ اور اسی لئے طے شدہ سمجھے جاتے ہیں۔ مارکسی، عمرانی، نفسیاتی، تاثراتی، رومانی، جمالیاتی انداز نقد اس کی معروف مثالیں ہیں۔ ان سے وابستہ ناقدین نہ صرف یہ کہ اپنے ہی راستہ کی صراط مستقیم سمجھتے ہیں بلکہ دوسرے انداز نقد کو خاطر میں بھی نہیں لاتے۔ Inductionکے طریقہ میں لچک ملتی ہے۔ کیونکہ پہلے سے کچھ بھی طے نہیں ہوتا جبکہ اس کے برعکسDedectionکی صورت میں کیونکہ اصول و ضوابط نہ صرف طے شدہ سمجھے جاتے ہیں بلکہ صرف ان ہی کو درست اور راہنما تصور کرتے ہوئے دیگر اسالیب نقد کر مسترد کردیا جاتا ہے اس لئے اپنی اساس میں یہ بے لچک بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ Inductionکی انتہا پسندانہ صورت میں ہر تصنیف کا جداگانہ معیار نقد قرار پائے گا اور بالآخر ایسے مشترک اصول و ضوابط نہ رہیں گے جنہیں ہر نوع کی تخلیق کے لئے راہنما قرار دیا جاسکے، یہ اچھا بھی ہے اور برا بھی۔ اس کا فیصلہ انفرادی ہوگا۔
کچھ ایسا ہی عالم معیار نقد کا بھی ہے جس کی دو صورتیں قرار دی جاسکتی ہیں۔ ایک معیار تو تاریخِ ادب کے تناظر میں طے پائے گا۔ یعنی ماضی کے تمام بڑے شعراءکا کلام پیش نگاہ رکھ کر کسی شاعر کی پرکھ کا معیار جبکہ دوسرا معیار خود شاعر کے کلام کے Inductiveتجزیہ کے بعد اس کے کلام میں سے اخذ کیا جائے گا اور پھر اسی اخذ شدہ معیار پر اس کے بقیہ کلام کی پرکھ کرنا۔ دونوں کے انفرادی تذکرے کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ہوا بند ڈبوں کی مانند جدا ہیں، یہ دونوں باہم آمیز ہو کر معیارِ نقد قرار پاتے ہیں۔ اول الذکر کو ”افقی“ اور موخرالذکر کو ”عمودی“ معیار قرار دیا جائے سکتا ہے۔
Deductionکی اساس بالعموم ماضی کے اصول و ضوابط ، روایات، کسی بڑے نقاد، فلسفی، دانشور کے اقوال پر استوار ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی فلسفہ، تھیوری، نظریہ پر اعتماد ہوتو اسے بھی درست اور تسلیم شدہ باور کیا جاتا ہے۔ وجوہ میں خاصہ تنوع مل سکتا ہے لیکن بنیاد کے طور پر پہلے سے ہی یہ طے شدہ ہوتا ہے کہ صرف یہی درست ہے جبکہ اس کے برعکسInduction کی خوبی ہی یہی ہے کہ اس میں پہلے سے کچھ بھی درستِ حقیقی، بنیادی اور لازم نہیں ہوتا۔ اول الذکر میں فیصلہ پہلے سے طے شدہ اصول کی روشنی میں ہوتا ہے۔ اس لئے اس فیصلہ کو پہلے سے طے شدہ اصول کی ضمنی پیداوار قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسے اس مثال سے سمجھئے کہ مارکسی نقاد مارکس کی تعلیمات کو قطعی اور درست تسلیم کرنے کے بعد تخلیق کے بارے میں جو نتیجہ اخذ کرے گا وہ مارکس کی تعلیمات کے دائرہ سے باہر نہیں جاسکتا کیونکہ ایسا کرنے کے نتیجہ میں نقاد کا اندازِ نظر مارکسی نہ رہے گا کچھ اور ہوجائے گا۔ اسی انداز پر نفسیاتی، جمالیاتی، تاریخی، عمرانی اور دیگر تنقیدی دبستانوں سے وابستہ ناقدین کی آرا ءکا بھی مطالعہ کرتے ہوئے ان کی حدود امکانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
Deductive Logicکے اصول ارسطو نے مدون کئے تھے۔ جیسا کہ لکھا گیا اس میں مفروضہ نہیں ہوتا بلکہ کسی امر کو پہلے سے طے شدہ اور قطعی قرار دے کر اس سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ اس کی معروف مثال یہ ہے:
انسان فانی ہے
انسان ہے
اس لئے وہ فانی ہے۔
صدیوں تک اس طرزِ استدلال کا فکریات میں سکہ چلتا رہا جبکہ مشرق میں تو اب بھی اسی منطق کا راج ہے جس کی سب سے خوفناک مثال ہم پیش کرتے ہیں۔انسان فانی ہے کو اس سے بدل دیں اس عقیدہ ،مسلک،سوچ،نظریہ کے حامل کافر ہیں لہٰذاانھیں قتل کرنا جائز بلکہ لازم ہے۔ کیونکہ وہ اس عقیدہ، مسلک، سوچ، نظریہ کا حامل ہے لہٰذا وہ واجب القتل ہے۔
اسی منطق نے بنیاد پرستی، ملائیت، مذہبی دہشت گردی اور ان کے تلخ ثمرات کے طور پر تعصب، نفرت، خشونت اور قتل کو ضروری اور جائز بلکہ قابلِ تعریف بھی قرار دے دیا۔ اس رویہ کا حامل کبھی بھی عقل عامہ، شعور، مثبت سوچ، دوسرے کے وجود اور حقوق کو تسلیم کرنے کی بات نہ کرے گا۔ کیونکہ اس کی اپنی عقلِ عامہ، شعور، مثبت سوچ سبھی کچھ اس کی اپنی منطق کے مطابق درست بلکہ صرف وہی درست ہے اور باقی سب غلط۔ غلط کی گنجائش نہیں اس لئے اس کا نام و نشان مٹادو۔ یہی منطق ہے جنگجو طالبان کی۔ جدید تعلیم کفر ہے لہٰذا تعلیمی درس گاہیں اڑادو۔ بے پردہ عورت بدکار ہے، گردن ماردو۔ امریکی کافر ہیں لہٰذا ان کا ساتھ دینے والوں کو نیست و نابود کردو۔ ادب و نقد میں بھی اس تصور نے بڑا غدر برپا کیا جیسے ترقی پسند مصنفین اور ناقدین کیونکہ مارکس کے نظریات ہی کو درست سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے غیر ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کو نہ کبھی تسلیم کیا اور نہ ان کی تحسین کی۔ میرا جی، ن م راشد، محمد حسن عسکری کے بارے میں ترقی پسند ناقدین کی آراءبطور مثال پیش کی جاسکتی ہیں، یہ تھی تنقیدی بنیاد پرستی!
یہ بیکن تھا جس نے Deductionکے بارے میں سوالات اٹھائے اور پھر منطق کی اس صورت کو سامنے لایا جسے Inductionکہا جاتا ہے۔ اس منطق میں پہلے سے کچھ بھی طے نہیں ہوتا بلکہ شواہد، کوائف، معلومات، مثالوں اور مشاہدات کے ذریعہ سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے یعنی:
اب ج د سب مرگئے
یہ سب انسان تھے
انسان فانی ہے
نتیجہ وہی ہے جو Deductionسے حاصل ہوا تھا لیکن اس تک پہنچنے کا طریق کار برعکس ہوگیا اور رویہ سائنس اور اس کی تحقیقات کی بنیاد بنا۔ یعنی مشاہدات، تجربات، آلات ہر ممکنہ ذریعہ سے نتیجہ اخذکرنا۔ اس کی خوبی یہ بھی ہے کہ نئے مشاہدات، تجربات اور آلات کے ذریعہ سے پہلے سے حاصل کردہ نتائج کو غلط بھی ثابت کیا جاسکتا ہے اور یہی سائنٹفک طریق کار ہے۔ سائنس کی دنیا میں کسی نظریہ، تصور، تھیوری کو اس وقت تک قطعی تسلیم نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ اس پر تمام ممکنہ اعتراضات نہ ہوجائیں اور ان کے تشفی بخش جوابات نہ مل جائیں۔ اسی لئے سائنسی تحقیقات کا عمل کبھی بھی نہیں رکتا کہ یہاں ثبات نہیں، تغیرات ہیں اور اسی وجہ سے سائنس سائنس ہے اور قابلِ عزت بھی (مغرب میں، ہمارے ہاں نہیں۔ ہمارے لئے تو یہ غیر ضروری بلکہ غیر مذہبی ہے)۔
جو نقاد اس طریقہ پر اپنی تنقید استوار کرے گا اس کے لئے لازم ہوگا کہ کسی ایک نظریہ، تصور اور تھیوری کی پابندی نہ کرے بلکہ تمام نظریات، تصورات اور تھیوریز کو مدنظر رکھ کر تخلیق کا مطالعہ کرے۔ تخلیق کی تفہیم و تعیین کے لئے جہاں سے بھی کارآمد مواد حاصل ہو اسے بروئے کار لائے، اس مقصد کے لئے ہر نظریہ، تصور اور تھیوری کی افادیت اور اہمیت کو تسلیم کرنا لازم ہوگا۔ کیونکہ نقاد کا کوئی ذاتی نظریہ، تصور یا تھیوری نہ ہوگی اس لئے ہر نوع کے نظریات و تصورات اور تھیوریز اس کی ہوں گی۔ یہ وہی طریقِ کار ہے جو ”Eclectic“ کہلاتا ہے۔ اردو ناقدین کی اکثریت بالعموم اسی طریقہ پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ یہ ناقدین کیونکہ کسی مخصوص نظریہ کے پابند نہیں ہوتے اس لئے وہ متنوع تصورات اور نظریات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
افلاطون اور ارسطو کی صورت میں دو ایسے فلاسفر ملتے ہیں جو آج بھی ہمیں کسی نہ کسی طرح سے متاثر کرتے ہیں۔ ان دونوں کا فلسفہDeductionاور Inductionکی عملی مثال پیش کرتا ہے۔ افلاطون کا طریقہ اول الذکر تھا یعنی اس نے کوائف، شواہد، مثالیں اور مواد حاصل کئے بغیر پہلے سے یہ طے کرلیا کہ اس جہان سے ماورا ایک عالم(World Of ideas) ہے۔ ہمارا جہان جس کی نقل ہے۔ شاعر اور ڈرامہ نگار کرداروں اور ان کے اعمال کے ذریعہ سے اس نقل کی نقل کرتا ہے۔ اس لئے وہ اصل، حقیقت اور صداقت سے دور ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اس نے ڈراما اور شاعری کو ناپسند کیا۔ اس نے پہلے ایک آئیڈیل معاشرہ کا تصور وضع کیا اور پھر اسی کے مطابق اپنی ”جمہوریہ“ سے شعراءکو جلا وطن کردیا۔ پہلے یہ طے کیا کہ فلسفہ سب سے افضل ہے اور پھر ”فلاسفر بادشاہ“ کا تصور پیش کیا۔
ارسطو کا طریقِ کار اس کے برعکس تھا اس نے معاصر ”المیہ“ اور ”رزمیہ“ کا مطالعہ کرکے ان میں مشترک مابہ الامتیاز عناصر دریافت کرکے ”Poetscs“ میں ڈراما کے اجزائے ترکیبی بیان کئے۔ وہ ڈرامے میں انسانی کردار و اعمال کا باعث نقل (Memises) قرار دیتا ہے مگر نقل ک ومابعدالطبیعات کی قلم رو میں نہیں لے جاتا۔ یعنی اس نے معاصر ڈراموں کے تجزیہ سے ان کے اصول اخذ کئے اس لئے اس کی معترضین نے یہ بھی کہا کہ اگر ارسطو شیکسپیئر کے عہد میں ہوتا تو اس نے المیہ اور طربیہ کا جداگانہ تذکرہ نہ کیا ہوتا۔ دونوں کا اندازِ تدریس بھی اسی انداز کا تھا۔ افلاطون اپنی ”اکیڈمی“ میں ایک جگہ بیٹھا ہوتا جبکہ شاگرد اس کے سامنے بیٹھتے تھے یعنی جو کلاس کا ماحول ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ارسطو اپنی درس گاہ ”لائینرم“ میں ایک جگہ بیٹھنے کے بجائے چلتا پھرتا گفتگو کرتا جاتا۔ اس کا شاگرد سکندر جن ممالک کو فتح کرتا وہاں کی مختلف النوع اشیاءدھاتیں، پھل پھول وغیرہ اسے بھجواتا رہتا۔ یوں ارسطو کی درس گاہ ایک طرح لیبارٹری میں تبدیل ہوگئی جہاں وہ اپنے شاگردوں کو زندہ مثالوں سے بات سمجھاتا۔ ارسطو سائنس دان نہ تھا لیکن تدریس میں سائنسی طریقِ کار اپنا رکھا تھا۔
افلاطون کے فلسفیانہ تصوراتDeductiveطریقِ کار کی واحد مثال نہیں بلکہ بیشتر فلاسفروں کا یہی طریقہ رہا ہے کہ کسی ایک تصور کو اساس مان کر اس پر افکار کی عمارت کی تعمیر۔ اس میں خرابی یہ ہے کہ اساس غلط ثابت ہونے پر اس پر جمع تصورات کا محل، تاش محل کی طرح گر جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی یہی کیا، انہوں نے زندگی معاشرہ، فنونِ لطیفہ، علوم، عقل، فلسفہ وغیرہ کے بارے میں افکار کا جو نظام شمسی ترتیب دیا خودی اس میں شمس کی مانند ہے کہ سبھی تصورات خودی سے کسب ضیا اور ثبات حاصل کرتے ہیں۔
مارکس کی صورت میں ایسا دانشور ملتا ہے جس نےInductionکے اصول کے باعث سرمایہ دارانہ نظام کے عناصر ترکیبی کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے ”زائد قدر“ (Surplus Value) کی صورت میں سرمایہ دار کا استحصالی طریقِ کار واضح کیا۔
فلاسفروں کے بعد دنیائے نقد میں واپس آئیں تو بعض اوقات یہاں بھی افلاطون کے رویہ سے مشابہ عمل کی مثالیں مل جاتی ہیں۔
مولانا شبلی نعمانی نے پہلے یہ طے کرلیا کہ انیس اور دبیر کا ایک سانس میں نام نہیں لیا جاسکتا۔ وہ ”موازنہ¿ انیس و دبیر“ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
”میر انیس کا کلام شاعری کی تمام اصناف کا بہتر سے بہتر نمونہ ہے لیکن ان کی قدر دانی کا طغرائے امتیاز صرف اس قدر ہے کہ کلام فصیح ہوتا ہے اور بین اچھے لکھتے ہیں۔ بدمذاقی کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اور مرزا دبیر حریف مقابل قرار دےے گئے اور مدت ہائے دراز کی غور وفکر، کدو کاوش، بحث و تکرار کے بعدبھی فیصلہ نہ ہوسکا کہ ترجیح کا مسند نشین کس کو کہا جائے۔“ (ص: ۳)
یوں انہوں نے قوم کی بدمذاقی کو ”درست مذاقی“ میں تبدیل کرنے کے لئے جب میزانِ نقد سنبھالی تو انیس کو ترجیح کا مسند نشین بنانے میں ڈنڈی مار گئے۔ اس ضمن میں سید احتشام حسین نے نکتہ کی بات کی کہ شبلی بنیادی طور پر مورخ تھے جس طرح ایک مملکت میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے اسی طرح شبلی نے بھی دبیر پر انیس کی فوقیت ثابت کرنے کی سعی کی۔ ”موازنہ¿ انیس و دبیر“ کے مطالعہ سے ”تقابلی تنقید“ کی کوتاہی بلکہ ناکامی بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ دراصل کسی ایک صنف، کسی ایک دبستان، کسی ایک عہد، کسی شہر میں رہائش یا کسی ایک نظریہ سے متعلق ہونے کے باوجود بھی دوشاعروں، اہلِ قلم، دانشوروں میں تقابل سودمند ثابت نہیں ہوسکتا اس لئے کہ تخلیق کے عمل پر عصری میلانات، سماجی، صورت حال اور امرونہی، ادبی اور سماجی ٹیبوز کے ساتھ ساتھ خود تخلیق کار کی شخصیت کی نفسی اساس بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی لئے لکھنو¿ میں رہائش اور مرثیہ نگاری کے باوجود بھی انیس اور دبیر کا موازنہ اور اس کی بنیاد پر فیصلہ بے سود ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح غالباً عبد الرحمن بجنوری کے ذہن میں بھی پہلے یہ فقرہ نازل ہوا ہوگا کہ:
”ہندوستان میں دو ہی الہامی کتابیں ہیں۔ وید مقدس اور دیوان غالب۔“
یہ دعویٰ ثابت کرنے کے لئے بجنوری نے دنیا بھر کے فلاسفروں، دانشوروں سے غالب کا موازنہ کرڈالا اس امر کے باوجود کہ لفظ فلاسفر سے وابستہ مفہوم کے مطابق غالب فلسفی تھا ہی نہیں۔
سلیم احمد نے بھی پہلے یہ طے کرلیا:
”عورت کی طرح شاعری بھی پورا آدمی مانگتی ہے۔“
اس کے بعد اسے ثابت کرنے کے لیے پوری کتاب ”نئی نظم اور پورا آدمی“ لکھ دی۔ اختر شیرانی، ن م راشد، فیض احمد فیض، میرا جی وغیرہ کی تحلیل نفسی کے بعد ایسے (بلکہ ایسے ویسے) نتائج برآمد کئے:
”منٹو پورا آدمی تھا جبکہ اختر شیرانی کا صرف اوپر کا دھڑ تھا۔“ (ص ۴۴)
جبکہ مولانا الطاف حسین حالی کے بارے میں یہ لکھا:
”حالی جب مولوی بنا تو اسے سچ مچ اپنے نچلے دھڑ سے شرم آنے لگی، ظاہر ہے کہ اس کے بعد عورت کا عشق اپنے آپ بے حیائی اور بے غیرتی بن گیا۔ گوشت پوست کی محبوبہ کو چھوڑ کر حالی نے قوم کو محبوبہ بنا لیا“۔ (ص۹۸)
یہ صرف چند مثالیں ہیں، اس انداز کی مزید مثالیں بھی مل سکتی ہیں۔
اگرچہ اس نوع کے تنقیدی رویے سے حاصل کردہ تنائج انوکھے یا چونکا دینے والے ثابت ہوسکتے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ فرمہ پر ٹوپی فٹ کرنے کی کوشش میں ٹوپی کے ٹانکے بھی ادھڑ سکتے ہیں۔ جہاں تک پورے مرد کا تعلق ہے تو جنسی جبلت (فرائیڈ کالیبڈو) کی قوت اور ہمہ گیری پر کسی کو بھی شک نہ ہوگا۔ لیکن کیا صرف زیادہ جنسی قوت کا حامل ہی ہمیشہ پورا مرد ثابت ہوتا ہے جب کہ تاریخ ادب میں متعدد ایسے نامور تخلیق کار ملتے ہیں جن کی جنسی استعداد یا تو کم تھی یا سرے سے نفی میں تھی۔ تخلیق جنس پیما ثابت ہوسکتی ہے مگر کسی حد تک۔ اگر نچلے دھڑ کی کار گزاری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پھر کا سا نوا سب سے بڑا تخلیق کار ثابت ہوگا جبکہ فرائیڈ کے بموجب تو کچلی ہوئی ناآسودہ جنسیت ارتفاع کے عمل کے ذریعہ سے تخلیق کا محرک ثابت ہوتی ہے۔ یہ رویہ اس منطق کی ضمنی پیداوار ہے:
کامیاب تخلیق کا جنس سے گہرا تعلق ہے
’الف‘ جنسی نہیں
لہٰذا ’الف ‘ کامیاب تخلیق کار نہیں
جب بنیاد پرست امرو نہی پر زور دیتا ہے تو وہ غلط نہیں ہوتا۔ لیکن خرابی اس وقت جنم لیتی ہے جب وہ صرف خود ہی کو صحیح سمجھتے ہوئے خود سے مختلف یا برعکس کو نہ صرف یہ کہ درست ہی نہیں سمجھتا بلکہ ملیامیٹ اور نیست و نابود کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، مردود قرار دیتے ہوئے۔
اردو زبان کے سلسلہ میں لکھنو¿ اور دہلی کی آویزش تاریخ ادب کا حصہ ہے۔ دونوں شہروں کے سخن دان ایک دوسرے کے الفاظ، تذکیر و تانیث اور واحد جمع پر اعتراضات کرتے رہتے تھے۔ جب میرا مَن نے سادہ اسلوب میں ”باغ و بہار“ لکھی اور اس کے دیباچہ میں خود کو ”دلّی کا روڑا“ لکھا تو رجب بیگ سرور نے اس کے اسلوب کو کم تر ثابت کرنے کے لئے ”فسانہ¿ عجائب“ قلم بندی کردی اور یہ کہہ کر کہ دلّی کے روڑے ہیں، محاورات کے ہاتھ منہ توڑے ہیں۔ میرامَن کا مذاق اُڑایا۔
علامہ اقبال پر اہلِ زبان کے اعتراضات بھی اسی نوعیت کے تھے۔ اہلِ زبان کے لئے اردو مادری زبان تھی۔ جب زبان کا بت بنا لیا گیا تو پھر ان کے لیے اس کے پجاری کا کردار ادا کرنا لازم تھا۔ اہل زبان کے پاس کوئی تنقیدی تھیوری نہ تھی اس لیئے وہ صرف حرمت زبان تک محدود تھے کہ زبان ہی ان کی تنقیدی تھیوری تھی۔ان کے لیے زبان ہی سب کچھ تھی اسی لیے انھوں نے علامہ اقبال کے فلسفہ¿ خودی ،تصورزیست ، پیغام پر توجہ دینے کے بر عکس الفاظ کے استعمال تک خود کو محدود رکھا۔جن اصحاب کو دہلی یا لکھنو¿ جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس امر کی گواہی دیں گے کہ آج زبان کے ان مراکز میں ہم جیسی اردو بھی نہیں بولی جاتی۔ ان میں وہی اردو بولی جاتی ہے جو ان کی فلموں کے کردار بولتے ہیں۔اس لئے آج اہل زبان کی اصطلاح غیر ضروری اور اہل زبان کا روز مرہ متروک قرار پاتا ہے۔
ہمارے بنیاد پرستوں نے مسلک غیرسے جو منفی سلوک روا رکھا وہ اتنا عام ہے کہ اب بطورخاص اس کا نوٹس ہی نہیں لیا جاتا،ہم اس منفی سلوک کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ان کے خلاف کبھی صدائے احتجاج بلند کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔
تنقید میں بنیادی پرستی کا اس وقت مظاہرہ ہوتا ہے جب نقاد اپنے نقطہ¿ نظر ،تصور ادب اور نظریہ¿ فن ہی کو درست تصور کرتے ہوئے مخالف یا بر عکس نقطہ¿ نظر ،تصور یا نظریہ کے خلاف قلمی محاذ قائم کر لیتا ہے۔ترقی پسند مصنفین ادب برائے زندگی ادب برائے مقصد ادب برائے افادہ کے حامی تھے اس لیے وہ ادب برائے ادب کے حامی اہلِ قلم کے خلاف مورچہ بند رہے۔ اب جب کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد سوشلزم کے ضمن میں وہ جذباتی فضانہیں رہی جو کبھی تھی ۔اب ہماری تنقید میں سے ادب برائے زندگی ،ادب برائے ادب کی بحثیں ختم ہو چکی ہیں۔میں ذاتی طور پر ادب برائے زندگی کا حامی ہوں لیکن میں اس کا بھی قائل ہوں کہ بر عکس تصور کے حامل کو بھی اپنا نقطئہ نظر پیش کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔اس کا حقہ پانی بند کرنے کی ضرورت نہیں۔جیسا کہ ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کے موقع پر ایک قرارداد کے ذریعہ کیا گیا ۔سرکاری جرائداور ریڈیو کے بائیکاٹ اور ترقی پسند پرچوںمیں غیر ترقی پسند ادیبوں کی تخلیقات شائع نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس پر ادبی حلقوں نے شدید احتجاج کیا۔سوال یہ ہے کہ کیا محمد حسن عسکری،ممتاز شیریں،سلیم احمد،انتظار حسین نے بُرا ادب تخلیق کیا؟بلکہ اس ضمن میں تو یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ نظریہ کے تحت جو تخلیق وجود میں آتی ہے کیا وہ غیر نظریاتی تخلیق کے مقابلہ میں واقعی افضل ہوتی ہے۔کیا فیض اس لئے بڑے شاعر ہیں کہ وہ ترقی پسند تھے؟
تنقید کا ایک اور روپ بھی معروف ہے یعنی کسی خاص ادبی شخصیت کے بارے میں غُلو برتتے ہوئے اسے ہر لحاظ سے فوقیت دی جاتی ہو جیسے شمس ا لر حمن فاروقی نے احمد مشتاق کو فراق گورکھ پوری پر فوقیت دی تو ڈاکٹر وزیر آغا نے رحمان مذنب کو سعادت حسن منٹو پر۔یوں شخصیت کا ایک سومنات بنا کر نقاداس کا بھگت بن جاتا ہے۔اس انداز کا عامیانہ رویہ ادبی گروہ بندیوں میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں مافیا کا ڈون ہی اصلی تے وڈّا قرار دیا جاتا ہے جبکہ ڈون کو نا ننے والوں کا انتقامی تحریروں کے ذریعہ سے گویا منہ کالا کیا جاتا ہے۔
اس رویہ کا ایک اور روپ بھی ہے جب کسی خاص صنفِ ادب کونہ تسلیم کرنے والے اس کی افادیت کے بارے میں کسی طرح کی دلیل تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔جوش ملیح آبادی کی مثال نمایاں ہے جنھوں نے اپنی ذہانت اور ادبی سوجھ بوجھ کے باوجود بھی غزل کو کبھی تسلیم نہ کیا اسی طرح ایسے اصحاب کی کمی نہیں جنھوں نے پہلے آزاد نظم اور پھر نثری نظم کو قبول نہ کیا۔جب یہ تسلیم نہیں کرنا تو پھرشاعری کرنے والوں کو تو شاعر تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہم کیونکہ انتہا پسند ہیں اسی لئے پُرامن بقائے باہمی کے قائل نہیں ، بالکل اسی طرح تنقیدی تصورات اور ذوق کے پیمانوں کے معاملہ میں بھی ہم پُرامن بقائے باہمی کے قائل نہیں۔ زندگی، ادب، تنقید، نظریات، تصورات، اصول و ضوابط اپنے محور کے لحاظ سے سبھی درست ہوتے ہیں۔ ان سب میں قطعی طور پر کچھ بھی ”قطعی“ نہیں۔ سبھی جزوی صداقت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس لئے جزو کو جزو ہی سمجھنا چاہئے۔ جزو کو کلی تسلیم کرلینا گمراہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لئے ادبی تنقید میں مخالف اور برعکس نظریات میں بھی پُرامن بقائے باہمی ہونی چاہئے۔
گزشتہ سطور میں تنقید میں Inductionکے کردار پر روشنی ڈالی گئی تھی اسی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تنقید سائنس ہوسکتی ہے؟ یعنی کیا تنقید میں سائنس جیسی قطعی معروضیت پیدا کی جاسکتی ہے؟ اور کیا اس معروضیت کے نتیجہ میں تنقید ریاضیاتی قطعیت جیسا نتیجہ فراہم کرسکتی ہے؟ جس طرح دو جمع دومساوی چار کی قطعیت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح تنقیدی نتائج بھی اتنے ہی قطعی ہوسکتے ہیں؟ اتنے قطعی کہ اپنی قطعیت میں سائنسی کلیوں کی مانند بے لچک اور دائمی ثابت ہوسکیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا نقاد سائنس دان کی مانند غیر جذباتی بھی ہوسکتا ہے؟ اور اتنا غیر جانبدار کہ تنقیدی عمل میں سے اس کی ذات خارج ہوجائے اور تخلیق لیبارٹری کے تجربی مواد جیسی صورت اختیار کرلے؟
ان سوالات کا جواب ہاں میں نہیں دیا جاسکتا اس لئے کہ تخلیق لیبارٹری کا DATAنہیں ہوتی بلکہ تخلیق کار کی ذات و صفات، شخصیت اور اس کے شعور بلکہ لاشعور تک کی مظہر ہوتی ہے۔ اس لیے اپنے وجود میں زندہ وقوعہ ہے، ریاضی کے اعداد نہیں۔ تنقیدی عمل سے نقاد کی ذات کی نفی ممکن نہیں۔ نقاد کی ادبی پسند، ناپسند، تعصاب، کسی خاص نظریہ سے وابستگی یا عدم وابستگی یہ سب کسی نہ کسی طرح اس کے تنقیدی آرا پر بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں کسی خاص تصور ادب یا تصورِ زیست سے نقاد کی وابستگی بھی کردار ادا کرسکتی ہے۔
تخلیق انسانوں اور ان کے جذبات و احساسات، افعال و اعمال، باطنی کیفیات، قلب و نظر، ذہن و اعصاب پر استوار ہوتی ہے جو فرد کی شخصیت کے لحاظ سے منفرد ہوتے ہیں۔ اس پر مستزاد لاشعوری محرکات کی پیدا کردہ الجھنیں اور پیچیدگیاں یہ سب لیبارٹری کے Dataکی مانند نہیں۔ Dataکے بارے میں پیش گوئی کی جاسکتی ہے لیکن انسان اور اس کے اعمال و افعال کے بارے میں یہ ممکن نہیں۔
مزید براں لیبارٹری کا ماحول طے شدہ، مقرر، متعین اور کنٹرولڈ ہوتا ہے جبکہ تخلیق ذہنی اعمال سے مشروط ہے جس کا مشاہدہ، مطالعہ اور تجزیہ ممکن نہیں۔ تخلیق تخلیقی عمل کا چمتکار ہے جس کی کارکردگی اسرار اور اخفا کے پردوں میں نہاں ہے۔ اعمال ذہن اور تخلیقی عمل ہر لحاظ سے لیبارٹری کی ضد ہیں۔
قوانین فطرت میں تسلسل ہے اور اسی لئے یکسانیت ملتی ہے۔ ایسی یکسانیت کہ کروڑوں سیارے، ستارے، کششِ ثقل، روشنی کی رفتار اور دیگر مظاہرِ فطرت جس اساسی اصول کے تحت عمل پیرا ہوں وہ دائمی اور ابدی ہے۔ اس لئے ان کے بارے میں پیش گوئی ممکن ہے۔ ایک طرف کو جھکی ہوئی زمین اپنا چاند لئے، اپنے محور پر گردش اور اپنے مدار پر سورج کے گرد اپنا سفر طے کرتی ہے، اسی طرح سیارے بھی گردش کناں ہیں۔ پھر یہ پورا نظام شمسی جس ”ملکی وے“ کہکشاں کا جزو ہے وہ تیز رفتاری سے خلا کی مسافر ہے اور اسی طرح دیگر کہکشائیں بھی خلا کے سفر کی منزلیں سر کررہی ہیں۔ کوئی کسی سے ٹکراتی نہیں۔ کوئی کسی کا راستہ نہیں روکتی، کوئی مزاحم نہیں، ہم ان کے طرز عمل کے بارے میں وثوق سے پیش گوئی کرسکتے ہیں اور اسی لئے ہمیں اگلے دن سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہوتا ہے۔
یہ قوانین فطرت کی دائمی استواری اور تسلسل ہی تھا جس کی بنا پر کلوننگ کے ذریعہ سے لیبارٹری میں بھیڑ پیدا کی گئی جس کا نام ڈولی رکھا گیا اور جو کئی برس تک زندہ رہی تھی۔ کلوننگ کی اگلی منزل انسان بنانا تھا مگر تمام حکومتوں نے اس پر پابندی عائد کردی۔ انسان، اس کے ذہن، اس کے اعصاب کے بارے میں کچھ بھی طے نہیں کیا جاسکتا اسی لئے تو ابنارمل سائیکولوجی میں ”نارمل“ کا کوئی تصور نہیں۔ تخلیق بھی اسی معمہ انسان کی شخصیت کا اظہار ہے جو وضع، انداز، اطوار اور کردار و عمل میں منفرد ہے۔
کائنات کا نظام تبدیل نہیں ہوتا، ہوسکتا ہی نہیں، جس دن اس میں خلل پیدا ہوا وہ روزِ قیامت ہوگا مگر انسان تو قیامت بداماں ہے اور اس لئے حشر برپا کرتا رہتا ہے۔ اس سے تخلیق اور Dataمیں فرق پیدا ہوتا ہے۔ قوانین فطرت کے تسلسل کے باعثTest Tube Babyممکن ہوا مگر Test Tube Poetryممکن نہیں اس امر کے باوجود کہ زیادہ تر شاعر Test Tube Babyہی محسوس ہوتے ہیں۔
سائنس دان کا طریقِ کار ایسا ہے کہ وہ غیر جذباتی انداز میں غیر جانبدار رہتے ہوئے مشاہدہ اور تجربہ کرسکتا ہے لیکن تخلیق کار ایسا نہیں کرسکتا۔ سائنس دان گلاب کے پھول کا تجزیہ کرکے یہ دریافت کرے گا کہ یہ سرخ کیوں ہے، اس میں خوشبو کیوں ہے، پنکھڑیوں کی ساخت ایسی کیوں ہے جبکہ شاعر کو ان امور سے کچھ لینا دینا نہیں، لہٰذا یہ کہہ کر اس کا کام ختم ہوجاتا ہے:
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میر
بلبل پکاری دیکھ کر صاحب پرے پرے
سائنس دان آلات کے ذریعہ پیمائش کرکے بتاتا ہے کہ ہمالیہ کی ماﺅنٹ ایورسٹ کی اونچائی 8850میٹر ہے جبکہ شاعر کے لئے یہ کہ دینا کافی:
اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
سائنس دان پھول کے مرجھانے کے اسباب سمجھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن شاعر کے لئے یہ کہہ دینا کافی ہے:
کس کس زباں سے اے گلِ پژمردہ تجھ کو گل کہوں
کس طرح تجھ کو تمنائے دلِ بلبل کہوں
(”گلِ پژمردہ“ از علامہ اقبال)
نقاد سائنس دان کی مانند غیر جذباتی اور غیر جانبدار ہوئے بغیر تخلیق کے بارے میں رائے زنی نہیں کرسکتا۔ اس کا موضوعی ہونا لازم ہے، اس کا علم و فضل اور وسعتِ مطالعہ بھی اس کی موضوعیت سے مشروط ہیں۔ نقاد کی پسند، ناپسند، تعصبات، نقطہ¿ نظر، تصورِ ادب یہ سب مل کر اس رائے کی تشکیل کرتے ہیں جو بالآخر سوچ کا محور ثابت ہوتی ہے بلکہ تاثراتی تنقید کی تو اساس ہی ذاتی تاثرات پر استوار ہے۔
سائنس کی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تخلیق بھی عضویت(Organism) کی مانند نامیاتی کل ہے جس میں الفاظ خلیوں کا کردار ادا کرتے ہیں تو ان میں مخفی معانی جینز کا۔ نبض شناسی کے بعد نقاد تخلیق کے حسن و قبح کی بات کرتا ہے لیکن سائنسی اصطلاحات اور سائنسی اسلوب جیسی ریاضیاتی قطعیت کے حوالہ سے ہر ناقد کا ذوق بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ اسے تنقید پر اعتراض اور نقاد کی کوتاہی نہ سمجھا جائے۔ اندازِ نظر کے اس تنوع اور اس سے جنم لینے والی بوقلمونی ہی میں تنقید کا مزا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ سائنس کی بنیاد مشاہدات اور تجربات سے حاصل کردہ Dataپر ہوتی ہے اور سائنسی ایجاد خواہ وہ کتنی ہی عجیب (بلکہ عجیب و غریب) محیرالعقول، پُراسرار بلکہ چمتکار ہی کیوں نہ محسوس ہو لیکن ان کی ساخت اور کارکردگی کے اصول کو سمجھ لیں تو عام فہم نظر آتی ہے۔ لیکن جو تخلیقی عمل تخلیق کو جنم دیتا ہے وہ ہنوز بھی ناقابلِ فہم ہے۔ تخلیقی عمل کو اساطیر، فلسفہ، نفسیات وغیرہ کے ذریعہ سے سمجھنے کی کوششیں کی گئیں لیکن بات نہ بنی۔ اس لئے کہ تخلیقی عمل کے زیرِ اثر تخلیق کرنے والا تخلیق کار بھی اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا سوائے اس کے کہ:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
مگر ”غیب“ کو سمجھنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یوں تخلیقی عمل طبیعات کی تجربی دنیا سے ماورا ہو کر اپنی جداگانہ مابعدالطبیعات کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کی تفہیم کا در وا کرنے والی کلید یعنی اسم اعظم دستیاب نہیں ہے۔ تاہم یہ جداگانہ امر کہ بعض اوقات بلحاظ تاثیر تخلیق کے الفاظ اسم اعظم ثابت ہوں۔
سائنس اپنے اصولوں کی اسیر ہے وہ آلات، تجربات اور لیبارٹری سے باہر نہیں جاسکتی جبکہ تخلیقی عمل ان سب سے بے نیاز ہے وہ ان کا مرہونِ منت نہیں بلکہ قائم بالذات، خود مختار اور خودکار ہے اور اس لئے نالہ پابندِ نے نہیں اورنالہ پابندِ لے بھی نہیں اس پر مستزاد یہ سوال:
از کجامی آید ایں آوازِ دوست؟

Related posts

Leave a Comment