شاہد ماکلی ۔۔۔ نہیں معــــلوم کب سے غـائب ہے

نہیں  معلوم کب سے غائب ہے ایک پل روز و شب سے غائب ہے کوئی پوری طرح نہیں سرشار اک نہ اک لہر سب سے غائب ہے ہو نہیں پا رہا تعیّنِ سمت تیری آواز جب سے غائب ہے کس دہانے پہ تھا ستارۂ بخت جب سے چمکا ہے، تب سے غائب ہے معنی کیسے ہو ملتوی شاہدؔ استعارہ ادب سے غائب ہے

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ اپنی حالت کو مشتہر کر کے

اپنی حالت کو مشتہر کر کے لاپتہ ہو گئے خبر کر کے نت نئے تجربوں سے گزرے ہم نت نئی زندگی بسر کر کے کارواں سے چھڑا لیا پیچھا ایک منزل کو رہگزر کر کے چار دیواری ہے عناصر کی جس میں داخل ہوئے ہیں در کر کے کس میں کتنی چمک ہے، جان لیا اک رصَد گاہ سے نظر کر کے خضر آبِ حیات تک پہنچا بحرِ مُردار سے گزر کر کے دن ہمارے ہیں جوں کے توں شاہد کیا ملا وقت میں سفر کر کے

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ لوگوں سے جس نے خود کو چھپایا، وہ کون تھا

لوگوں سے جس نے خود کو چھپایا، وہ کون تھا کل شب نقاب پوش جو آیا، وہ کون تھا وہ کون تھا کہ جس نے الٹ دی بساطِ خواب جس نے یہ سارا کھیل رچایا، وہ کون تھا ہم سارے دوست ایک جگہ جمع ہوتے ہیں دشمن کو جا کے جس نے بتایا، وہ کون تھا افلاس کی لکیر سے نیچے ہو خیمہ زن تم کو جو اس نشیب میں لایا، وہ کون تھا حرمت سبھی پہ فرض ہے دل کے مکان کی دیوار جو پھلانگ کے آیا، وہ کون…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ وسطِ سینہ میں غم کی تپش ہے ، فضا گرم ہے

وسطِ سینہ میں غم کی تپش ہے ، فضا گرم ہے اِستوائی مقاموں کی آب و ہوا گرم ہے کیا کریں سیر جاکر تناظُر کے قطبَین میں اِن دنوں تو وہاں کا بھی موسم بڑا گرم ہے معتدل ہے وہ حیرت کدہ ، جس میں رہتے ہو تم جس میں ہم رہ رہے ہیں وہ حسرت سرا گرم ہے گہما گہمی ہے کون و مکاں کے ہر اسٹال پر خوش ہے مالک کہ بازارِ ارض و سما گرم ہے ولولے کی تمازت سے ہیں دل کی سرگرمیاں زندگی کی حرارت…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ تنہا بھٹکتی رُوحوں کی یکساں مَعاش ہے

تنہا بھٹکتی رُوحوں کی یکساں مَعاش ہے تم کو ہماری ، ہم کو تمھاری تلاش ہے میرا تمھارا رات کے باغوں میں گھومنا اک راز ہے جو صرف اندھیرے پہ فاش ہے دُنیا شکستہ ’’آئنہ دیوار‘‘ ہی نہ ہو ٹکرا کے جس سے عکس مرا پاش پاش ہے یہ لوگ زومبی فلم کے کردار ہی نہ ہوں ہر شخص چلتی پھرتی ہوئی زندہ لاش ہے انسان ہی تو سب سے بڑا ہے خدا پرست انسان ہی تو سب سے بڑا بُت تراش ہے سب سے زیادہ دیکھی گئی چیز ’’خواب‘‘…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ ہیولہ گزرے گا جسموں کے آر پار مرا

ہیولہ گزرے گا جسموں کے آر پار مرا کہ انحراف کا عنصُر ہے تاب کار مرا نہار و لیل کے وقفے میں چلتا رہتا ہے سمے میں لا پتہ ہونے کا اشتہار مرا بلند ہونے لگی سطح ، دل کے دریا کی پگھلتا جاتا ہے باطن کا برف زار مرا نظامِ وقت مرا ہَیک کر لیاگیا ہے چُرا لیا گیا صدیوں کا اعتبار مرا کبھی حقیقتِ اشیا نہ کھل سکی مجھ پر حواسِ خمسہ پہ جب تک تھا انحصار مرا نگر میں قحط پڑا ، جنگلوں میں آگ لگی کُرہ…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ خدا نہ کردہ کہ ابر و ہوا میں ٹھن جائے

خدا نہ کردہ کہ ابر و ہوا میں ٹھن جائے زمیں زمیں نہ رہے ، ریگ زار بن جائے اسے تو چودہ طبق سے گزرنا ہوتا ہے کرن کے ساتھ کہاں تک کوئی بدن جائے اب ایک رُت پہ ثمر آئے اور موسم کا اور اک چمن کی مہک دوسرے چمن جائے میں چٹکیوں میں اُڑاؤں گا پھر سفوف اس کا ذرا یہ گاڑھی اُداسی قلم سے چھن جائے یونہی مہکتی فضاؤں میں سانس لیتا رہوں ہواؤں سے نہ تری بوئے پیرہن جائے یہ پیڑ بیج تھا ، یہ بحر…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ یہیں گرد و نواح میں گونجتی ہے، مرے قرب و جوار سے پھوٹتی ہے

یہیں گرد و نواح میں گونجتی ہے، مرے قرب و جوار سے پھوٹتی ہے کوئی دُور دراز کی چاپ نہیں، جو سکوت کے پار سے پھوٹتی ہے یہ جہانِ مجاز ہے عکس نُما، کسی اور جہاں کی حقیقتوں کا یہاں چاند اُبھرتا ہے پانیوں سے، دھنک آئنہ زار سے پھوٹتی ہے وہاں ساری شگُفت تضاد سے ہے، جہاں حیرتیں اوڑھ کے گھومتا ہوں کہیں پھول چٹان سے پھوٹتا ہے، کہیں آگ چنار سے پھوٹتی ہے نہ شمال و جنوب میں دیکھتا ہوں، نہ طلوع و غروب میں دیکھتا ہوں میں…

Read More