نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ شاہد ماکلی

گریہ مرا وُضو ہے ، حضوری نماز ہے اب میں ہوں اور تصورِ شہرِ حجاز ہے باطن میں لو ہے ایک سراجِ منیر کی پتھر سا دل اِسی کی تپش سے گداز ہے بگڑے ہوئے اُمور سنور جائیں گے مرے اک دستِ مہربان مرا کارساز ہے وابستگی حریصُ علیکم سے ہے مری باطن میں اور طرح کا اک حرص و آز ہے اللہ مجھ کو عشق میں ثابت قدم رکھے اس راہ میں ہزار نشیب و فراز ہے

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ نمائشوں کے نمونے مصورانہ ہیں

نمائشوں کے نمونے مصورانہ ہیں یہ کائناتیں خدا کا نگار خانہ ہیں کوئی کنارہ  نہیں حیرتوں کی وسعت کا عجائبات کی دنیائیں بیکرانہ ہیں تمھارے خواب کے موتی تو یک گرہ ہوں گے ہمارے خواب کی مالائیں دانہ دانہ ہیں بہت سا وقت خدا کے بغیر کٹتا ہے بہت سے شام و سحر ہیں جو بے زمانہ ہیں گزرتا جاتا ہے شاہد ہمارا مستقبل  ابد سے ماضی کی جانب کہیں روانہ ہیں

Read More

شاہد ماکلی… آتشِ بیگانگی( صابر ظفر)

صابر ظفر صاحب کا تخلیقی وفور لائقِ رشک ہے ۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی زندگی اور جدید سماج کی صورتِ حال کی تمثال آفرینی کے نمونے ان کے ہاں کثرت سے ملتے ہیں ۔ پھر یہ کہ جدید سے جدید مثبت شعری رجحانات سے وابستگی نے انھیں ہمیشہ تازہ دم رکھا ہے ۔ وہ معاصر ادبی، سماجی، سیاسی اور تخلیقی نیرنگیوں سے رس کشید کر کے اپنی غزل میں سموئے جاتے ہیں اور اپنی تازہ دمی اور توانائی کو بحال رکھ کر تخلیقی منہاج پر آگے سے آگے بڑھے…

Read More

شاہد ماکلی… چراغاں ہے ، گل پوش رستے ہیں ، پرچھائیاں ہم قدم ہیں

چراغاں ہے ، گل پوش رستے ہیں ، پرچھائیاں ہم قدم ہیں ہواؤں کا مارا ہوا ساحلی شہر ہے اور ہم ہیں نگر کی چکا چوند سے دُور غاروں میں آ بیٹھتا ہوں جہاں عہدِ رفتہ کی تہذیب کی داستانیں رقم ہیں خیالات و خواب و خبر کی رسائی ہے عالم بہ عالم وہاں سے میں گزرا نہیں ہوں، جہاں میرے نقشِ قدم ہیں عجب منطقہ ہے، جہاں دن سے رات اِس طرح مل رہی ہے اُجالے اندھیروں میں ضم ہیں،اندھیرے اُجالوں میں ضم ہیں مرے دل میں ہی موسموں…

Read More

شاہد ماکلی… مسلسل ایک نئے امتحاں میں رہنے لگا

مسلسل ایک نئے امتحاں میں رہنے لگا جو خود میں رہ نہیں پایا ، زیاں میں رہنے لگا ازل اُلانگ گیا میں ، ابد پھلانگ گیا حدوں کو پھاند گیا ، لا زماں میں رہنے لگا اک انہدام نے دُنیا مری بدل ڈالی مکاں گرا تو میں کون و مکاں میں رہنے لگا دریچہ بند تھا مجھ پر مری حقیقت کا کہانی کھل گئی ، میں داستاں میں رہنے لگا بشر سماجی ذرائع سے کیا جُڑا شؔاہد کہ سب سے کٹ کے مجازی جہاں میں رہنے لگا

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ ہم پا بہ گِل نہیں تھے نباتات کی طرح

ہم پا بہ گِل نہیں تھے نباتات کی طرح آزادہ رَو تھے خواب و خیالات کی طرح خاک ایک دن میں خاک سے سونا نہیں ہوئی سو مرحلوں سے گزری ہے کچ دھات کی طرح ڈھل جاتے ہیں اُسی میں جو سانچہ میسر آئے شاید ہمارے ذہن ہیں مائعات کی طرح یہ آگ اپنی اَصل میں باطل نہ ہو کہیں دل پر اثر ہے جس کا طلسمات کی طرح لے لی نئے غموں نے پرانے غموں کی جا جسموں میں بنتے ٹوٹتے خلیات کی طرح تاروں کے ساتھ گنتا ہوں…

Read More

شاہد ماکلی … مرے سُکوت سے ٹکراتی تھی ہنسی اس کی

مرے سُکوت سے ٹکراتی تھی ہنسی اس کی زیادہ دن نہ چلی دوستی مری اس کی وہ منہدم ہوا اپنی کشش کے زیرِ اثر اور ایک نقطے میں جِھلمل سمٹ گئی اس کی میں ایک منظرِ گم گشتہ کی تلاش میں تھا اُمید آگے سے آگے لیے پھری اس کی فسردہ یوں بھی نہیں ہوں مَیں دل کے بجھنے پر تم آؤ گے تو چمک لوٹ آۓ گی اس کی نہ صرف یہ کہ چھٹی حِس یقیں دلاتی ہے گواہی دیتے ہیں پانچوں حواس بھی اس کی خبر دُھوئیں کی…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔۔۔۔ میں گھر میں دیکھا گیا، رہ گزر میں پایا گیا

میں گھر میں دیکھا گیا، رہ گزر میں پایا گیا حضر میں ہوتے ہوئے بھی سفر میں پایا گیا میں اپنی گم شدَگی سے ہی مشتہر ہُوا ہوں میں جب کہیں بھی نہیں تھا، خبر میں پایا گیا دیا بجھا ہوا دیکھا گیا شبستاں میں کوئی مَرا ہوا اپنے ہی گھر میں پایا گیا وہ رو برو بھی نہیں تھا مگر عجب یہ ہے اسی کا عکس مری چشم تر میں پایا گیا شدید رنج ہے شاہد خبر رسانوں کو کہ خواب کیوں مرے رختِ سفر میں پایا گیا

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ مجھ میں ہے آرزو کی لَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو

(حافظ شیرازی کے لیے) مجھ میں ہے آرزو کی لَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو روز فزوں ہے جس کی ضَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو آخرِ شب یہ کس کی یاد مجھ میں سحر نشاں ہوئی پھوٹ رہی ہے ایک پَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو گزری رُتوں کا ہجر تو یاد بھی اب نہیں مجھے مہکی ہے فصلِ وصلِ نو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو ایک اُمید کی کرن آئی تو ہے نظر مجھے اُتری تو ہے فلک سے ضَو، تازہ بہ تازہ نَو…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ اِن آتی جاتی رُتوں سے نہیں جڑا ہُوا مَیں

اِن آتی جاتی رُتوں سے نہیں جڑا ہُوا مَیں ترے خیال کے آثار میں ہَرا ہُوا مَیں پہنچ گیا ہوں کسی لاوجود لمحے میں دوامی ساعتوں کے خواب دیکھتا ہُوا مَیں کسی کے دستِ تسلی سے اس لیے ہے گریز کہیں چھلک نہ پڑوں رنج سے بھرا ہُوا مَیں اب انتظار کے پل ختم ہونے والے ہیں پلٹنے والا ہوں اپنی طرف گیا ہُوا مَیں کنارے لگنے ہی والا ہوں تیری یاد سمیت خود اپنی موجِ تماشا پہ تیرتا ہُوا مَیں یہ ممکنات کی دنیا ہے، کچھ بھی ممکن ہے…

Read More