شاہد ماکلی… آتشِ بیگانگی( صابر ظفر)

صابر ظفر صاحب کا تخلیقی وفور لائقِ رشک ہے ۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی زندگی اور جدید سماج کی صورتِ حال کی تمثال آفرینی کے نمونے ان کے ہاں کثرت سے ملتے ہیں ۔ پھر یہ کہ جدید سے جدید مثبت شعری رجحانات سے وابستگی نے انھیں ہمیشہ تازہ دم رکھا ہے ۔ وہ معاصر ادبی، سماجی، سیاسی اور تخلیقی نیرنگیوں سے رس کشید کر کے اپنی غزل میں سموئے جاتے ہیں اور اپنی تازہ دمی اور توانائی کو بحال رکھ کر تخلیقی منہاج پر آگے سے آگے بڑھے جاتے ھیں ۔

میں نے روشن تب ظفر کی شمعِ ما بعدِ جدید
جب علامت جل گئی ، جب استعارہ جل گیا

"آتشِ بیگانگی ” صابر ظفر صاحب کا 44 واں شعری مجموعہ ہے ۔ آگ اور اس کے تلازمات سے بُنا ہوا اظہاریہ اس مجموعے کی خاص بات ہے ۔ کئی غزلوں میں آگ، آتش ،شعلے، چراغ اور جلنا / جلانا مصادر کی مختلف شکلوں کو ردیف کے طور پر برتا گیا ہے جس سے آگ اور اس کے تلازمات کے حوالے سے مختلف معنوی جہات سامنے آئی ہیں ۔
اس تازہ مجموعے کی اشاعت پر صابر ظفر صاحب کو بہت مبارک باد ۔ ذیل میں چند منتخب اشعار قارئین کے ذوقِ شعری کی نذر :

دشت میں رات ہو گئی ہے ظفر
پوچھتا ہوں پتا سرائے کا

وقت جلتا ہوا دیکھا گیا لمحہ لمحہ
ایک لمحے کی طرح دوسرے لمحات جلے

اجل ہے چاروں طرف، زندگی کدھر جائے
وہ مر ہی جائے کہ جس کا ضمیر مر جائے

کسی رت کسی بھی ہوا میں رہو
مگر اپنے دل کی فضا میں رہو

روشنی جو نہیں ہونی تو نہیں ہونی ہے
چاہے دل صبح جلے، شام جلے، رات جلے

کسی کے ظلم سے کفّار یاد آتے ہیں
مگر امید ہے پرورد گارِ عالم سے

سازش کے ثبوت جل رہے تھے
خیموں میں خطوط جل رہے تھے

تعبیر کی لَو میں ڈھل رہا تھا
میں خواب تھا اور جل رہا تھا

روحوں سے جو کوئی دم ملیں گے
جسموں کے بغیر ہم ملیں گے

آیا نہیں ہم کو آگ ہونا
ہم ورنہ مآلِ کار جلتے

چاروں طرف رُونما ، آتشِ بیگانگی
پھر بھی ہمیں گل زمیں! تجھ سے غضب عشق ہے

Related posts

Leave a Comment