شاہد ماکلی… مسلسل ایک نئے امتحاں میں رہنے لگا

مسلسل ایک نئے امتحاں میں رہنے لگا جو خود میں رہ نہیں پایا ، زیاں میں رہنے لگا ازل اُلانگ گیا میں ، ابد پھلانگ گیا حدوں کو پھاند گیا ، لا زماں میں رہنے لگا اک انہدام نے دُنیا مری بدل ڈالی مکاں گرا تو میں کون و مکاں میں رہنے لگا دریچہ بند تھا مجھ پر مری حقیقت کا کہانی کھل گئی ، میں داستاں میں رہنے لگا بشر سماجی ذرائع سے کیا جُڑا شؔاہد کہ سب سے کٹ کے مجازی جہاں میں رہنے لگا

Read More

شاہد ماکلی … مرے سُکوت سے ٹکراتی تھی ہنسی اس کی

مرے سُکوت سے ٹکراتی تھی ہنسی اس کی زیادہ دن نہ چلی دوستی مری اس کی وہ منہدم ہوا اپنی کشش کے زیرِ اثر اور ایک نقطے میں جِھلمل سمٹ گئی اس کی میں ایک منظرِ گم گشتہ کی تلاش میں تھا اُمید آگے سے آگے لیے پھری اس کی فسردہ یوں بھی نہیں ہوں مَیں دل کے بجھنے پر تم آؤ گے تو چمک لوٹ آۓ گی اس کی نہ صرف یہ کہ چھٹی حِس یقیں دلاتی ہے گواہی دیتے ہیں پانچوں حواس بھی اس کی خبر دُھوئیں کی…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔۔۔۔ میں گھر میں دیکھا گیا، رہ گزر میں پایا گیا

میں گھر میں دیکھا گیا، رہ گزر میں پایا گیا حضر میں ہوتے ہوئے بھی سفر میں پایا گیا میں اپنی گم شدَگی سے ہی مشتہر ہُوا ہوں میں جب کہیں بھی نہیں تھا، خبر میں پایا گیا دیا بجھا ہوا دیکھا گیا شبستاں میں کوئی مَرا ہوا اپنے ہی گھر میں پایا گیا وہ رو برو بھی نہیں تھا مگر عجب یہ ہے اسی کا عکس مری چشم تر میں پایا گیا شدید رنج ہے شاہد خبر رسانوں کو کہ خواب کیوں مرے رختِ سفر میں پایا گیا

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ مجھ میں ہے آرزو کی لَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو

(حافظ شیرازی کے لیے) مجھ میں ہے آرزو کی لَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو روز فزوں ہے جس کی ضَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو آخرِ شب یہ کس کی یاد مجھ میں سحر نشاں ہوئی پھوٹ رہی ہے ایک پَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو گزری رُتوں کا ہجر تو یاد بھی اب نہیں مجھے مہکی ہے فصلِ وصلِ نو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو ایک اُمید کی کرن آئی تو ہے نظر مجھے اُتری تو ہے فلک سے ضَو، تازہ بہ تازہ نَو…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ اِن آتی جاتی رُتوں سے نہیں جڑا ہُوا مَیں

اِن آتی جاتی رُتوں سے نہیں جڑا ہُوا مَیں ترے خیال کے آثار میں ہَرا ہُوا مَیں پہنچ گیا ہوں کسی لاوجود لمحے میں دوامی ساعتوں کے خواب دیکھتا ہُوا مَیں کسی کے دستِ تسلی سے اس لیے ہے گریز کہیں چھلک نہ پڑوں رنج سے بھرا ہُوا مَیں اب انتظار کے پل ختم ہونے والے ہیں پلٹنے والا ہوں اپنی طرف گیا ہُوا مَیں کنارے لگنے ہی والا ہوں تیری یاد سمیت خود اپنی موجِ تماشا پہ تیرتا ہُوا مَیں یہ ممکنات کی دنیا ہے، کچھ بھی ممکن ہے…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔۔۔۔۔ پُل نہ رہا درمیاں، سیلِ خطر رہ گیا

پُل نہ رہا درمیاں، سیلِ خطر رہ گیا کوئی اِدھر رہ گیا، کوئی اُدھر رہ گیا کتنی ہی صبحیں کبھی میرے گریباں میں تھیں آنکھ میں اب تو فقط خوابِ سحر رہ گیا کچھ بھی نہیں رہ گیا جسم میں دل کے سوا راکھ کے اِس ڈھیر میں ایک شرر رہ گیا جس کے در و بست پر میں نے توجہ نہ دی آخر اُسی نقش کا مجھ میں اثر رہ گیا وقت کی لہر اس طرح سب کو بہا لے گئی اب یہ پتہ ہی نہیں، کون کدھر رہ…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رُکے ہوئے وقت کو رواں کر دیا گیا ہے

رُکے ہوئے وقت کو رواں کر دیا گیا ہے بالآخر ازلوں کا دُکھ بیاں کر دیا گیا ہے فلک کی جانب گیا زمیں کا غبار سارا مری دھنک کو دُھواں دُھواں کر دیا گیا ہے مزید آسان ہو گئی ہے رسائی رُخ تک حجاب ایک اور درمیاں کر دیا گیا ہے وہ شعلہ جس سے میں اپنی راتیں اُجالتا تھا اب اُس کا ہونا بھی رایگاں کر دیا گیا ہے میں آنکھ سے دل میں لے گیا ہوں شبیہ اُس کی جو شے عیاں تھی، اُسے نہاں کر دیا گیا…

Read More