پُل نہ رہا درمیاں، سیلِ خطر رہ گیا
کوئی اِدھر رہ گیا، کوئی اُدھر رہ گیا
کتنی ہی صبحیں کبھی میرے گریباں میں تھیں
آنکھ میں اب تو فقط خوابِ سحر رہ گیا
کچھ بھی نہیں رہ گیا جسم میں دل کے سوا
راکھ کے اِس ڈھیر میں ایک شرر رہ گیا
جس کے در و بست پر میں نے توجہ نہ دی
آخر اُسی نقش کا مجھ میں اثر رہ گیا
وقت کی لہر اس طرح سب کو بہا لے گئی
اب یہ پتہ ہی نہیں، کون کدھر رہ گیا
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...