شاہد ماکلی ۔۔۔۔۔۔۔ پُل نہ رہا درمیاں، سیلِ خطر رہ گیا

پُل نہ رہا درمیاں، سیلِ خطر رہ گیا کوئی اِدھر رہ گیا، کوئی اُدھر رہ گیا کتنی ہی صبحیں کبھی میرے گریباں میں تھیں آنکھ میں اب تو فقط خوابِ سحر رہ گیا کچھ بھی نہیں رہ گیا جسم میں دل کے سوا راکھ کے اِس ڈھیر میں ایک شرر رہ گیا جس کے در و بست پر میں نے توجہ نہ دی آخر اُسی نقش کا مجھ میں اثر رہ گیا وقت کی لہر اس طرح سب کو بہا لے گئی اب یہ پتہ ہی نہیں، کون کدھر رہ…

Read More