شاہد ماکلی ۔۔۔ ہم پا بہ گِل نہیں تھے نباتات کی طرح

ہم پا بہ گِل نہیں تھے نباتات کی طرح آزادہ رَو تھے خواب و خیالات کی طرح خاک ایک دن میں خاک سے سونا نہیں ہوئی سو مرحلوں سے گزری ہے کچ دھات کی طرح ڈھل جاتے ہیں اُسی میں جو سانچہ میسر آئے شاید ہمارے ذہن ہیں مائعات کی طرح یہ آگ اپنی اَصل میں باطل نہ ہو کہیں دل پر اثر ہے جس کا طلسمات کی طرح لے لی نئے غموں نے پرانے غموں کی جا جسموں میں بنتے ٹوٹتے خلیات کی طرح تاروں کے ساتھ گنتا ہوں…

Read More

شاہد ماکلی … مرے سُکوت سے ٹکراتی تھی ہنسی اس کی

مرے سُکوت سے ٹکراتی تھی ہنسی اس کی زیادہ دن نہ چلی دوستی مری اس کی وہ منہدم ہوا اپنی کشش کے زیرِ اثر اور ایک نقطے میں جِھلمل سمٹ گئی اس کی میں ایک منظرِ گم گشتہ کی تلاش میں تھا اُمید آگے سے آگے لیے پھری اس کی فسردہ یوں بھی نہیں ہوں مَیں دل کے بجھنے پر تم آؤ گے تو چمک لوٹ آۓ گی اس کی نہ صرف یہ کہ چھٹی حِس یقیں دلاتی ہے گواہی دیتے ہیں پانچوں حواس بھی اس کی خبر دُھوئیں کی…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔۔۔۔ میں گھر میں دیکھا گیا، رہ گزر میں پایا گیا

میں گھر میں دیکھا گیا، رہ گزر میں پایا گیا حضر میں ہوتے ہوئے بھی سفر میں پایا گیا میں اپنی گم شدَگی سے ہی مشتہر ہُوا ہوں میں جب کہیں بھی نہیں تھا، خبر میں پایا گیا دیا بجھا ہوا دیکھا گیا شبستاں میں کوئی مَرا ہوا اپنے ہی گھر میں پایا گیا وہ رو برو بھی نہیں تھا مگر عجب یہ ہے اسی کا عکس مری چشم تر میں پایا گیا شدید رنج ہے شاہد خبر رسانوں کو کہ خواب کیوں مرے رختِ سفر میں پایا گیا

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ مجھ میں ہے آرزو کی لَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو

(حافظ شیرازی کے لیے) مجھ میں ہے آرزو کی لَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو روز فزوں ہے جس کی ضَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو آخرِ شب یہ کس کی یاد مجھ میں سحر نشاں ہوئی پھوٹ رہی ہے ایک پَو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو گزری رُتوں کا ہجر تو یاد بھی اب نہیں مجھے مہکی ہے فصلِ وصلِ نو، تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو ایک اُمید کی کرن آئی تو ہے نظر مجھے اُتری تو ہے فلک سے ضَو، تازہ بہ تازہ نَو…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ اِن آتی جاتی رُتوں سے نہیں جڑا ہُوا مَیں

اِن آتی جاتی رُتوں سے نہیں جڑا ہُوا مَیں ترے خیال کے آثار میں ہَرا ہُوا مَیں پہنچ گیا ہوں کسی لاوجود لمحے میں دوامی ساعتوں کے خواب دیکھتا ہُوا مَیں کسی کے دستِ تسلی سے اس لیے ہے گریز کہیں چھلک نہ پڑوں رنج سے بھرا ہُوا مَیں اب انتظار کے پل ختم ہونے والے ہیں پلٹنے والا ہوں اپنی طرف گیا ہُوا مَیں کنارے لگنے ہی والا ہوں تیری یاد سمیت خود اپنی موجِ تماشا پہ تیرتا ہُوا مَیں یہ ممکنات کی دنیا ہے، کچھ بھی ممکن ہے…

Read More

مجید امجد کی نظم نگاری ۔۔۔ شاہد شیدائی

مجید امجد کی نظم نگاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجید امجد کا شعری اطلس دھرتی کے تار و پود سے تیار ہوا ہے جس کی ملائمت اَور سوندھے پن نے ہر طرف اپنا جادو جگا رکھا ہے۔ اُن کی لفظیات اَور اِمیجری میں ہمارے اِرد گرد پھیلے شہروں‘ کھیتوں کھلیانوں‘ جنگلوں‘ پہاڑوں‘ میدانوں‘ دریاؤں اَور سبزہ زاروں کی خوشبو کچھ اِس انداز سے رچی بسی ہے کہ تخلیقات کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو اپنا پورا وجود مہکتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔ مجید امجد نے اگرچہ غزل بھی کہی مگر اُن کی اصل…

Read More

شاہد فرید

ترکِ تعلقات کا کب شوق تھا ہمیں حالات ہی کچھ ایسے تھے، مجبور ہو گئے

Read More

کاسہ اُٹھائے پھرتے ہیں خیرات کے لیے ۔۔۔ شاہد فرید

کاسہ اُٹھائے پھرتے ہیں خیرات کے لیے کرنا ہے کچھ تو اب گزر اوقات کے لیے پابند کر دیا ہے محبت کے کھیل نے اب اِذن چاہیے ترا  ہر بات کے لیے کیا خوب جا نتا ہے طبیعت مری عدو مجھ سے کمک وہ مانگے مری مات کے لیے انکار کرتے کرتے اچانک پلٹ گیا آمادہ ہو گیا وہ ملاقات کے لیے صحرا بھی میرے ساتھ دعا میں ہوا شریک اُٹھے ہیں ہاتھ جب مرے برسات کے لیے پھر اس کے بعد وہ نہیں آیا کہیں نظر شاہد ہمارا ساتھ…

Read More

نقش بر آب ۔۔۔ شاہد فرید

نقش بَر آب ۔۔۔۔۔۔ مَیں نے اِک تصویر بنائی جھیل کے نیلے پانی پر لمحوں کے کنکر نے اس میں جھریاں بھر دیں ہجر کی بارش آئی تو وہ ٹھہر نہ پائی اب مَیں جھیل کنارے بیٹھا گزرے وقت کو ڈھونڈ رہا ہوں محو ِ رقص ہے پانی اور مَیں ڈوبے نقش کو ڈھونڈ رہا ہوں اپنے عکس کو ڈھونڈ رہا ہوں

Read More

خواب زار ۔۔۔ ڈاکٹر غافر شہزاد

خواب زار ۔۔۔۔۔۔۔ خواب زار ۔۔۔شاہدفرید کا اولین مجموعہ کلام ہے اور اس مجموعے کی اشاعت کے سلسلے میں ہی مَیں نے اسے قدرے قریب سے دیکھا ہے۔ سیدھا سادا بھلا سا نوجوان جس کی آنکھوں میں اولیں محبتوں کی جلتی بجھتی چنگاریاں روشن ہیں ۔ محبتیں کرنے والے لوگ یونہی دھیمے کیوں ہوتے ہیں ، اِن کی آواز اور لحن میں احساسِ زیاں نہیں ہوتا۔ اِن کی مٹھی سے زندگی ریت کی طرح مسلسل گرتی رہتی ہے مگر وہ مٹھی خالی ہو جانے سے بے خبر ریت میں روشن…

Read More