شاہد فرید

ترکِ تعلقات کا کب شوق تھا ہمیں حالات ہی کچھ ایسے تھے، مجبور ہو گئے

Read More

کاسہ اُٹھائے پھرتے ہیں خیرات کے لیے ۔۔۔ شاہد فرید

کاسہ اُٹھائے پھرتے ہیں خیرات کے لیے کرنا ہے کچھ تو اب گزر اوقات کے لیے پابند کر دیا ہے محبت کے کھیل نے اب اِذن چاہیے ترا  ہر بات کے لیے کیا خوب جا نتا ہے طبیعت مری عدو مجھ سے کمک وہ مانگے مری مات کے لیے انکار کرتے کرتے اچانک پلٹ گیا آمادہ ہو گیا وہ ملاقات کے لیے صحرا بھی میرے ساتھ دعا میں ہوا شریک اُٹھے ہیں ہاتھ جب مرے برسات کے لیے پھر اس کے بعد وہ نہیں آیا کہیں نظر شاہد ہمارا ساتھ…

Read More