کاسہ اُٹھائے پھرتے ہیں خیرات کے لیے ۔۔۔ شاہد فرید

کاسہ اُٹھائے پھرتے ہیں خیرات کے لیے کرنا ہے کچھ تو اب گزر اوقات کے لیے پابند کر دیا ہے محبت کے کھیل نے اب اِذن چاہیے ترا  ہر بات کے لیے کیا خوب جا نتا ہے طبیعت مری عدو مجھ سے کمک وہ مانگے مری مات کے لیے انکار کرتے کرتے اچانک پلٹ گیا آمادہ ہو گیا وہ ملاقات کے لیے صحرا بھی میرے ساتھ دعا میں ہوا شریک اُٹھے ہیں ہاتھ جب مرے برسات کے لیے پھر اس کے بعد وہ نہیں آیا کہیں نظر شاہد ہمارا ساتھ…

Read More

نقش بر آب ۔۔۔ شاہد فرید

نقش بَر آب ۔۔۔۔۔۔ مَیں نے اِک تصویر بنائی جھیل کے نیلے پانی پر لمحوں کے کنکر نے اس میں جھریاں بھر دیں ہجر کی بارش آئی تو وہ ٹھہر نہ پائی اب مَیں جھیل کنارے بیٹھا گزرے وقت کو ڈھونڈ رہا ہوں محو ِ رقص ہے پانی اور مَیں ڈوبے نقش کو ڈھونڈ رہا ہوں اپنے عکس کو ڈھونڈ رہا ہوں

Read More