ٹھٹھک کر جاگنا ۔۔۔۔ عبدالرشید

ٹھٹھک کر جاگنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھٹھک کر جاگنا اک وہم تھا، جھوٹی تسلی
آفرینش سے مرے گھڑیال کی اس ٹکٹکی تک
ایک ہی صورت کو گھڑتے، اس کے دست و چپ پہ
ماتھے کو رگڑتے، شام کرتے دیر کر دی
جیسے راشد نے کہا تھا دیر جیسی دیر کر دی

بازوئوں میں اپنی طفلانہ ہنسی کو قید کر کے
خوش رہے ، جو راستہ بھی چن لیا
پھر اس کے سنگِ میل کے ہر اک اشارے پر
کھڑائوں لے کے ہم بیٹھے رہے
امید بھی، افتاد بھی اور خستگی بھی
سنگریزوں کی طرح درماں بنی

دن بھی نشہ ہے اس سے واضح کچھ نہیں
اور وصل کیا اپنے سے استفسار ہے
یہ گرمیوں کی آتشک اس کا الائو ہے
جو بارش کی برستی بوند سے ٹھنڈا نہیں ہوتا

اسیرِ خواہش اوقات گو اتنا نہیں
پھر بھی مکدر ساعتوں کی گہری پرچھائیں
کا ایسا نقش ہے جو خود مٹائے مٹ نہیں سکتا

یہاں پر ہر گلی بگڑے ہوئے چہرے کی چتون
ہر سبق کا اشتعال اس کی حرارت
ہر دعا گویا کتابِ آرزو کا وہ ورق ہے
جس کو الٹانے سے پہلے سوچنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجموعہ کلام: انی کنت من الظالمین

مطبوعہ: بار اول: ۱۹۷۳ء ، بار دوئم: ۲۰۱۱ء

سانجھ پبلی کیشنز، لاہور

Related posts

Leave a Comment