شاہد ماکلی ۔۔۔۔۔۔۔ پُل نہ رہا درمیاں، سیلِ خطر رہ گیا

پُل نہ رہا درمیاں، سیلِ خطر رہ گیا کوئی اِدھر رہ گیا، کوئی اُدھر رہ گیا کتنی ہی صبحیں کبھی میرے گریباں میں تھیں آنکھ میں اب تو فقط خوابِ سحر رہ گیا کچھ بھی نہیں رہ گیا جسم میں دل کے سوا راکھ کے اِس ڈھیر میں ایک شرر رہ گیا جس کے در و بست پر میں نے توجہ نہ دی آخر اُسی نقش کا مجھ میں اثر رہ گیا وقت کی لہر اس طرح سب کو بہا لے گئی اب یہ پتہ ہی نہیں، کون کدھر رہ…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رُکے ہوئے وقت کو رواں کر دیا گیا ہے

رُکے ہوئے وقت کو رواں کر دیا گیا ہے بالآخر ازلوں کا دُکھ بیاں کر دیا گیا ہے فلک کی جانب گیا زمیں کا غبار سارا مری دھنک کو دُھواں دُھواں کر دیا گیا ہے مزید آسان ہو گئی ہے رسائی رُخ تک حجاب ایک اور درمیاں کر دیا گیا ہے وہ شعلہ جس سے میں اپنی راتیں اُجالتا تھا اب اُس کا ہونا بھی رایگاں کر دیا گیا ہے میں آنکھ سے دل میں لے گیا ہوں شبیہ اُس کی جو شے عیاں تھی، اُسے نہاں کر دیا گیا…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔۔۔۔ تمثیل میں یہ سین بھی لے آنا پڑا ہے

تمثیل میں یہ سین بھی لے آنا پڑا ہے پرچھائیں کو پرچھائیں سے مروانا پڑا ہے کم روشنی سے کام مرا چلتا نہیں تھا آخر مجھے دو کرنوں کو ٹکرانا پڑا ہے تنہائی کا چہرہ تو نہیں تھا کہ دِکھاتے تنہائی کا احساس ہی دِلوانا پڑا ہے نظّارگی نظموں میں سماتی ہی نہیں تھی بانہوں کی طرح سلسلہ پھیلانا پڑا ہے اَجرام تھے تفہیم کے رستے میں رکاوٹ تصویرِ فلک سے انھیں ہٹوانا پڑا ہے ذرّات کا برتاؤ بھی لہروں کی طرح تھا جھکّڑ کو بھنور دشت کا بتلانا پڑا…

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔۔ مرے ہی سانس کے بل پر فروغ پاتا ہوا

مرے ہی سانس کے بل پر فروغ پاتا ہوا یہ کیسا شعلہ ہے مجھ میں جگہ بناتا ہوا یہ ذوق ہے عمل انگیز کی طرح مجھ کو اُفق اُفق مری رفتار کو بڑھاتا ہوا ہزار نوری برس پر تھا میری رات سے دن مَیں آپ مٹ گیا یہ فاصلہ مٹاتا ہوا مَیں اپنے دُودھیا رستے سے ہو کے جاتا ہوں زمیں سے اور کسی کہکشاں کو جاتا ہوا کہیں نہ اپنی بصارت سے ہاتھ دھو بیٹھوں اک آفتاب کو مَیں آئنے میں لاتا ہوا خواص ،جانیے، کیا تھے دل اور…

Read More