شاہد ماکلی ۔۔۔۔۔۔ تمثیل میں یہ سین بھی لے آنا پڑا ہے

تمثیل میں یہ سین بھی لے آنا پڑا ہے پرچھائیں کو پرچھائیں سے مروانا پڑا ہے کم روشنی سے کام مرا چلتا نہیں تھا آخر مجھے دو کرنوں کو ٹکرانا پڑا ہے تنہائی کا چہرہ تو نہیں تھا کہ دِکھاتے تنہائی کا احساس ہی دِلوانا پڑا ہے نظّارگی نظموں میں سماتی ہی نہیں تھی بانہوں کی طرح سلسلہ پھیلانا پڑا ہے اَجرام تھے تفہیم کے رستے میں رکاوٹ تصویرِ فلک سے انھیں ہٹوانا پڑا ہے ذرّات کا برتاؤ بھی لہروں کی طرح تھا جھکّڑ کو بھنور دشت کا بتلانا پڑا…

Read More