شاہد ماکلی ۔۔۔ ہیولہ گزرے گا جسموں کے آر پار مرا

ہیولہ گزرے گا جسموں کے آر پار مرا
کہ انحراف کا عنصُر ہے تاب کار مرا

نہار و لیل کے وقفے میں چلتا رہتا ہے
سمے میں لا پتہ ہونے کا اشتہار مرا

بلند ہونے لگی سطح ، دل کے دریا کی
پگھلتا جاتا ہے باطن کا برف زار مرا

نظامِ وقت مرا ہَیک کر لیاگیا ہے
چُرا لیا گیا صدیوں کا اعتبار مرا

کبھی حقیقتِ اشیا نہ کھل سکی مجھ پر
حواسِ خمسہ پہ جب تک تھا انحصار مرا

نگر میں قحط پڑا ، جنگلوں میں آگ لگی
کُرہ ہے موسمی آفات کا شکار مرا

کہاں کہاں مری موجِ نفَس نہیں جاتی
کہاں کہاں نہیں پھیلا ہوا غبار مرا

شکست اپنے ہی احباب سے ہوئی دل کو
خود اپنے حلقے میں ہارا اُمید وار مرا

مکانِ سبز کی گیسیں تپش کا باعث ہیں
ہوائے گرم سے گلشن ہے شعلہ زار مرا

ہر اک طرف سے ہی غم کا کھچاؤ یکساں ہے
توازن اِس لیے اب تک ہے بر قرار مرا

جو دیکھے کوئی تو مخفی ہے آنکھ سے شاہد
نہ دیکھے کوئی تو منظر ہے آشکار مرا

Related posts

Leave a Comment