عمر قیاز قائل ۔۔۔ اب نہ گزرے ہُوئے ماضی کو صدائیں دینا

اب نہ گزرے ہُوئے ماضی کو صدائیں دینا
اِس دبی آگ کو ہرگز نہ ہَوائیں دینا

نفرتیں بڑھ گئیں اِس تیری زمیں پر زِیادہ
اے خُدا میرے مجھے اور خَلائیں دینا

اُس کاہے طرزِ تغافل تو دِل آزار بہت
کام اپنا ہے مگر اُس کو دُعائیں دینا

اے خُدا! اَگلے جَنم پر ہے تمنّا میری
بے لباسی کو مرے اور قبائیں دینا

جانتا ہُوں کہ نہیں لوٹ کے آنے والا
میری عادت ہے اُسے پھر بھی صدائیں دینا

حرفِ دُشنام ہے مقسوم سدا سے اپنا
کارِ آسان نہیں ہم کو دُعائیں دینا

میں کہ قائل بھی تِری ذات کا سائل بھی ہُوں
میرے رب بخش بھی سب میری خطائیں دینا

Related posts

Leave a Comment