ڈاکٹر خالدہ انور ۔۔۔ تیرے ہی نام سے ہے عبارت کہ جو بھی تھی

تیرے ہی نام سے ہے عبارت کہ جو بھی تھی
یہ عمر بھر کی ساری مسافت کہ جو بھی تھی

مخمور موسموں کی رفاقت کہ جو بھی تھی
اور اس پہ آنسوؤں کی بغاوت کہ جو بھی تھی

قائم ہے اب بھی دل میں اُسی رنگ ڈھنگ سے
وہ تجھ پہ اعتبار کی عادت کہ جو بھی تھی

سب کچھ گنوا کے باعثِ صد افتخار ہے
وہ رِشتۂ وفا کی طہارت کہ جو بھی تھی

بس کام آ رہی ہے ترے ہجر میں وہی
اِک عمرِ رفتگاں کی ریاضت کہ جو بھی تھی

خواب و خیال ہوگئی جنسِ وفا یہاں
عنقا ہے وہ جنوں کی صداقت کہ جو بھی تھی

شاید ہے اپنا جامۂ جمہور تار تار
برسوں سے ہے وہیں پہ قیادت کہ جو بھی تھی

آنے سے اُن کے وہ بھی میّسر نہیں رہی
ہر لمحۂ اِنتظار کی لذّت کہ جو بھی تھی

احساس بن کے خونِ جگر میں رواں رہی
اِک خواب خواب لمس کی حِدّت کہ جو بھی تھی

Related posts

Leave a Comment