غالب

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

Read More

بہار کی واپسی ۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی

بہار کی واپسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چپ چاپ بیٹھا ہوں اس رہگزر پر یہی سوچتا ہوں کہ خط لانے والا کہیں آج بھی کہہ نہ دے: کچھ نہیں ہے یہ کیا بات ہے لوگ اک دوسرے سے جدا ہو کے یوں جلد ہیں بھول جاتے وہ دن رات کا ساتھ ہنسنا ہنسانا وہ باتیں جنھیں غیر سے کہہ نہ پائیں اچھوتے سے الفاظ جو شاہراہوں پہ آتے ہوئے دیر تک ہچکچائیں کچھ الفاظ کے پھول جو اس چمن میں کھلے تھے جسے محفلِ دوش کہیے جو کچھ دیر پہلے ہی برہم…

Read More

حامد یزدانی… ایک تھر ہے اِدھر شِمال میں بھی

ایک تھر ہے اِدھر شِمال میں بھی میرا گھر ہے اِدھر شِمال میں بھی ایک وقفہ کہ زندگی کہیے مختصر ہے اِدھر شِمال میں بھی غم نوردی اُدھر ہی ختم نہیں دوپہر ہے اِدھر شِمال میں بھی ضبط کی مشرقی روایت کا کچھ اثر ہے اِدھر شِمال میں بھی کبھی حامد کی شاعری سنیے کچھ ہنر ہے اِدھر شِمال میں بھی

Read More

غالب

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

Read More

غالب ۔۔۔ بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا اِس تکلّف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا…

Read More

غالب ۔۔۔ دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا

دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی گر نفَس جادہ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پہ بھی راضی کہ کبھی گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا کس سے محرومئ قسمت کی شکایت…

Read More

اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا

شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یارب! تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا اے نو آموزِ فنا ہمتِ دشوار پسند! سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا شوخئِ رنگِ حنا خونِ وفا سے کب تک آخر اے عہد شکن! تو…

Read More

اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا

دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا دل تاجگر کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب اس رہ گزر میں جلوۂ گل، آگے گرد تھا جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی دل بھی اگر گیا، تو وہی دل کا درد تھا احباب چارہ سازئ وحشت نہ کر سکے زنداں میں بھی خیال،…

Read More

اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ دل مرا سوز ِنہاں سے بے محابا جل گیا

دل مرا سوز ِنہاں سے بے محابا جل گیا آتش خاموش کی مانند گویا جل گیا دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟ کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار اِس چراغاں کا کروں کیا کارفرما جل گیا میں ہوں…

Read More

اسداللہ خاں غالب

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

Read More