غالب ۔۔۔ بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا اِس تکلّف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا…

Read More