واجد امیر ۔۔۔ حمد باری تعالی

کیسے مرے محدود سے وجدان میں آئے
کیسے وہ بھلا عقل کے جُزدان میں آئے

بے شک نہ کبھی وہ مری پہچان میں آئے
کچھ عکس کبھی دیدۂ حیران میں آئے

انسان اگر سب ترا انکار بھی کردیں
کچھ فرق نہ اللہ تری شان میں آئے

تشکیک کا دھبہ نہ لگے دل کے وَرق پر
کیوں نقص زرا سا مرے ایمان میں آئے

اِک خوف رگوں میں جو اُتارے ہے تکاثر
اِک کیف الگ سورۂ رحمٰن میں آئے

دیتا ہے تسلّی کوئی اندیکھا مسیحا
وسواس اگر کچھ دلِ نادان میں آئے

سجدے مرے آنکھوں سے ٹپک جائیں خوشی سے
رحمت کی گھٹا جب مرے دالان میں آئے

انگشت بہ دنداں تری مخلوق ہو ساری
جب نامِ محمد ترے عُنوان میں آئے

تخلیق تو خود منتظرِ کُن ہے سدا کی
خلاقِ ازل کس طرح انسان میں آئے

Related posts

Leave a Comment