حمیدہ شاہین ۔۔۔ اُگتے ہوئے نہ روند ، لگے مت خراب کر

اُگتے ہوئے نہ روند ، لگے مت خراب کر تو زرد ہے تو سب کے ہَرے مت خراب کر اپنی کڑی سے کاٹ خرابی کا سلسلہ پہلے ہوئے نبیڑ ، نئے مت خراب کر جو جس مقام پر ہے اُسے بے سبب نہ چھیڑ بکھرے ہوئے سمیٹ ، پڑے مت خراب کر چھُونے کے بھی اصول ہیں ، ہر شاخ کو نہ چھُو چھدرے تو منتظر ہیں ، گھنے مت خراب کر جو فطرتاً خراب ہیں ان کا تو حل نہیں جو ٹھیک مل گئے ہیں تجھے مت خراب کر…

Read More

حمیدہ شاہین

شاید پیچھے آنے والے ہم سے بہتر دیکھیں ہم نے کچھ دروازے کھولے ، کچھ پردے سرکائے

Read More

حمیدہ شاہین ۔۔۔ گرہ کھل رہی ہے

"گرہ کھل رہی ہے” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُدھڑنے کا لمحہ سَروں پر لٹکتی ہوئی تیغ ہے اب گماں اور حقیقت کی نیلی فضا میں کہیں تیرتا ہے وہ ذرّہ سا پَل جب ترے ذہن و دل پر وہ امکان اُترے جو سب راز کھولے تری انگلیاں اُس سِرے کو پکڑ لیں جہاں اک قدیمی تسلسل تعطّل میں رکھا گیا ہے تری مضطرب انگلیاں ایک ہلکی سی جنبش سے ترتیب تبدیل کر دیں سِرا کھینچ کر تُو نئے ہی تسلسل کا آغاز کر دے وہ دہشت ،جو امکان کی قید میں ہے اُسے…

Read More

حمیدہ شاہین ……. مجبور انگلیوں نے وہ نمبر مِلا لیا

مجبور انگلیوں نے وہ نمبر مِلا لیا یکدم ہی زندگی کو سماعت نے آ لیا لہجے میں اک جلے ہوئے رشتے کی آنچ تھی یخ بستگی کا بوجھ اسی نے اٹھا لیا آواز تھی کہ ایک بھڑکتا الاؤ تھا ہم نے بھی لفظ لفظ کو مشعل بنا لیا تھوڑی سی بے نیام تھی شمشیرِ گفتگو اس کو بھی اَن سُنی کی رِدا میں چھپا لیا جس لفظ پر شکوک بڑھانے کا شک پڑا اس کا فساد بات بدل کر دبا لیا جھکّڑ تھمے تو گردِ گلہ ساز بھی چھَٹی طوفاں…

Read More