حمیدہ شاہین ……. مجبور انگلیوں نے وہ نمبر مِلا لیا

مجبور انگلیوں نے وہ نمبر مِلا لیا یکدم ہی زندگی کو سماعت نے آ لیا لہجے میں اک جلے ہوئے رشتے کی آنچ تھی یخ بستگی کا بوجھ اسی نے اٹھا لیا آواز تھی کہ ایک بھڑکتا الاؤ تھا ہم نے بھی لفظ لفظ کو مشعل بنا لیا تھوڑی سی بے نیام تھی شمشیرِ گفتگو اس کو بھی اَن سُنی کی رِدا میں چھپا لیا جس لفظ پر شکوک بڑھانے کا شک پڑا اس کا فساد بات بدل کر دبا لیا جھکّڑ تھمے تو گردِ گلہ ساز بھی چھَٹی طوفاں…

Read More