حزیں صدیقی…. دشتِ امکاں طے کرے تنہا کوئی

دشتِ امکاں طے کرے تنہا کوئی
لاؤ میرے سامنے مجھ سا کوئی

جاں بلب ہے دشت میں پیاسا کوئی
مالکِ ابر و ہوا! چھینٹا کوئی

جب ہٹی در سے نگاہِ منتظر
بن گیا دیوار پر چہرہ کوئی

دیکھتے کیا، سانس لینا تھا محال
اس قدر نزدیک سے گزرا کوئی

خواب ہی میں خواب کی تعبیر تھی
بند آنکھوں سے نظر آیا کوئی

جب بھی مَیں اپنے تعاقب میں چلا
پیچھے پیچھے چل پڑا سایہ کوئی

ہوں گے کانٹے بھی ریاضِ دہر میں
میرے دامن سے نہیں الجھا کوئی

Related posts

Leave a Comment