اظہر فراغ ۔۔۔ غزلیں

اسی لیے ترے دعووں پہ مسکرا رہے ہیںہم اپنا ہاتھ تری پشت سے اٹھا رہے ہیں وہ خود کہاں ہے جو نغمہ سرا ہے صدیوں سےیہ کون ہیں جو فقط اپنے لب ہلا رہے ہیں ہوئے ہیں دیر سے ہموار زندگی کے لیےضرور ہم کسی لشکر کا راستہ رہے ہیں ابھی کسی کی خوشی میں شریک ہونا ہےابھی کسی کے جنازے سے ہو کے آ رہے ہیں بس اپنی خوش نظری کا بھرم رکھا ہوا ہےشکستہ آئنے ترتیب سے لگا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس کس سے کر کے اس کو…

Read More

اظہر فراغ… صرف اس کی دکان چل رہی ہے

taza صرف اس کی دکان چل رہی ہےتیز جس کی زبان چل رہی ہے یہ ہوا دشت کی نہیں لگتیجس قدر بے نشان چل رہی ہے کون حائل ہو اس کے رستے میںیوں سمجھئے چٹان چل رہی ہے راہ سے ہٹنا چاہتی ہو گیراہ کے درمیان چل رہی ہے آپ بیتی میں کیسا رد و بدلکون سا داستان چل رہی ہے

Read More

اظہر فراغ ۔۔۔ صرف اس کی دکان چل رہی ہے

صرف اس کی دکان چل رہی ہے تیز جس کی زبان چل رہی ہے یہ ہوا دشت کی نہیں لگتی جس قدر بے نشان چل رہی ہے کون حائل ہو اس کے رستے میں یوں سمجھیے چٹان چل رہی ہے راہ سے ہٹنا چاہتی ہو گی راہ کے درمیان چل رہی ہے آپ بیتی میں کیسا رد و بدل کون سا داستان چل رہی ہے

Read More

اظہر فراغ ۔۔۔ اشتراک 

اشتراک  ۔۔۔۔۔۔ تجھے مبارک ترا عقیدہ مجھے مقدم مرا تفکر چلو یہ مانا کہ خیر تو ہے چلو یہ مانا کہ میرا سارا شعور شر ہے مرے سوالوں کا آج اتنا جواب دے دے سن اے مقدس صحیفے طاقوں میں رکھنے والے کبھی پڑھا ہے؟ کہ ان صحیفوں میں کیا لکھا ہے وہ معجزہ گر سنی سنائی کہانیوں کے تو جن کی قبروں کو سرخ پھولوں سے بھر رہا ہے تو اُن گلابوں کو زندہ لوگوں پہ خرچ کرتا تو کیا بُرا تھا؟ محبتوں کو گناہ کہنے سے پہلے اتنا…

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔۔۔ اظہر فراغ

نہ تیرنے کے ہنر سے واقف نہ ہم ہیں پختہ سفینے والے تری شفاعت کے آسرے پر رواں دواں ہیں مدینے والے ستم تو یہ ہے، مرے پیمبر! فقط یہ حلیے کی ورزشیں ہیں وگرنہ ایسے دکھائی دیتے تری اطاعت میں جینے والے درود گوئی کا سلسلہ تو فقط بہانہ بنا ہوا ہے اکٹھے ہوتے ہیں روز جام ِرخِ منور کو پینے والے جوسوچتے تھے دیا جلائے بنا خریدیں گے روشنی کو مجھے بتاؤ، مرے عزیزو! کہاں گئے وہ خزینے والے نبی سے سیکھا ہوا ہے ہم نے عداوتوں کو…

Read More

اظہر فراغ ۔۔۔ ہوا کے رخ پہ دیا دھر نہیں گیا تھا میں

Read More

اظہر فراغ ۔۔۔ اچھے خاصے لوگوں پر بھی وقت اک ایسا آ جاتا ہے

Read More

اظہر فراغ ۔۔۔۔۔ کچھ تو آواز سے شک پڑتا ہے

کچھ تو آواز سے شک پڑتا ہے پھر وہ کنگن بھی کھنک پڑتا ہے پہلے کرتا ہے طلب پہلی نشست پھر اسی بس سے لٹک پڑتا ہے کیسے ساحل سے سمندر دیکھوں میرے زخموں پہ نمک پڑتا ہے راز دار ایک کنواں تھا اپنا آج کل وہ بھی چھلک پڑتا ہے چھوٹے چھوٹے سے ہیں رشتے لیکن واسطہ قبر تلک پڑتا ہے اشک جیسے مرا ہمسایہ ہو وقت بے وقت ٹپک پڑتا ہے اس کے سائے پہ نہ رہنا، مرے دوست! یہ شجر بیچ سڑک پڑتا ہے

Read More