ایمان قیصرانی ۔۔۔ ہنسنے رونے سے گئے، ربط بڑھانے سے گئے

ہنسنے رونے سے گئے، ربط بڑھانے سے گئے
ایسی اُفتاد پڑی سارے زمانے سے گئے 

وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی
اپنے سجدوں سے گئے رزق کمانے سے گئے

دل تو پہلے ہی جدا  تھے یہاں بستی والو
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے

اس قدر قحط ِ وفا ہے مرے اطراف کہ اب
یار یاروں کو بھی احوال سُنانے سے گئے

زخم اتنے تھے کہ ممکن ہی نہ تھا انکا شمار
پھر بھی اے دوست ترے ہاتھ لگا نے سے گئے

اپنی قامت میں فلک بوس تھے ہم لوگ مگر
اک زمیں زاد کے آواز لگانے سے گئے 

اپنا یہ حال کہ ہیں جان بچانے میں مگن
اور اجداد جو تھے، جان لڑانے سے گئے 

تجھ کو کیا علم کہ ہم تیری محبت کے طُفیل
ساری دنیا سے کٹے،سارے زمانے سے گئے

اصل مقصود تو بس تجھ سے ملاقات ہی تھا
ہم ترے شہر مگر اور بہانے سے گئے

Related posts

Leave a Comment