ایمان قیصرانی ۔۔۔ اس سے پہلے کہ جائے خاموشی

اس سے پہلے کہ جائے خاموشی کوئی مصرع اُٹھائے خاموشی رات کی سیڑھیوں پہ بیٹھے ہیں میں، تری یاد، چائے، خاموشی پھر اداسی نے میرے ہونٹوں پر پڑھ کے پھونکی دعائے خاموشی یعنی اب ضبط کے مقابل ہے دور تک انتہائے خاموشی؟ اس کے جاتے ہی اوڑھ لیتی ہے میری دنیا ردائے خاموشی شور ہرپا ہے جو مرے اندر اس کو لگ جائے ہائے خاموشی پھر سماعت میں دیر تک گونجی نیلگوں اک ضیائے خاموشی دھوپ بیساکھیاں اُتارے تو میرا کمرہ دکھائےخاموشی گھر کی تختی پہ آج لکھ آئی یہ…

Read More

ایمان قیصرانی ۔۔۔ ہنسنے رونے سے گئے، ربط بڑھانے سے گئے

ہنسنے رونے سے گئے، ربط بڑھانے سے گئے ایسی اُفتاد پڑی سارے زمانے سے گئے  وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی اپنے سجدوں سے گئے رزق کمانے سے گئے دل تو پہلے ہی جدا  تھے یہاں بستی والو کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے اس قدر قحط ِ وفا ہے مرے اطراف کہ اب یار یاروں کو بھی احوال سُنانے سے گئے زخم اتنے تھے کہ ممکن ہی نہ تھا انکا شمار پھر بھی اے دوست ترے ہاتھ لگا نے سے گئے اپنی قامت…

Read More

ایمان قیصرانی ۔۔۔ مُندی آنکھوں سے ہر پل جاگتا ہے

مُندی آنکھوں سے ہر پل جاگتا ہے کوئ مجھ میں مسلسل جاگتا ہے اُدھرسگریٹ دھواں ہونے لگا ہے  اِدھر آنکھوں میں کاجل جاگتا ہے کوئ پنکھے سے لٹکا ہے جنوں میں کہیں سیجوں پہ صندل جاگتا ہے  ابھی دم سادھ کےچپ چاپ بیٹھو ابھی وحشت کا جنگل جاگتا ہے  میں بچھڑی کونج ہوں میری بدولت کبھی روہی، کبھی تھل جاگتا ہے  تہجد میں دعا کے پھول کاڑھے مری امی کا آنچل جاگتا ہے  یہ دنیا جس گھڑی سوتی ہے ایماں مرے اندر وہ سوجھل جاگتا ہے

Read More

ایمان قیصرانی ۔۔۔ آنکھوں میں ترا ہجر بسانے کے نہیں ہیں

آنکھوں میں ترا ہجر بسانے کے نہیں ہیں یہ دن توسنو روٹھ کے جانے کے نہیں ہیں تا عمر گوارا ہیں یہ مخمل سے اندھیرے  آنکھوں سے ترے ہاتھ ہٹانے کے نہیں ہیں  طائف ہو کہ ڈیرہ ہو یا ملتان کہ روہی  ہم خانہ بدوش ایک ٹھکانے کے نہیں ہیں کٹ جائیں نہ ان سےکہیں ماوں کے کلیجے یہ اشک چھپانےہیں،دکھانے کے نہیں ہیں  جس دشت میں کھویاتھا مرا سرخ کجاوہ اس دشت میں ہم لوٹ کےجانے کے نہیں ہیں  جو شعر ترے غم کی ریاضت سے ملےہیں وہ شعر…

Read More

ایمان قیصرانی ۔۔۔ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﭨﮭﮩﺮﺍ ﺩﺭﯾﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ

ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﭨﮭﮩﺮﺍ ﺩﺭﯾﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺩﺍﺳﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺻﺪﻗﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺎ ﮨﮯﻣﯿﺮﺍ ﺭﺳﺘﮧ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﮧ ﻭﺍﺭ ﮐﮯ ﺳﭻ ﻣﭻ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﺑﮭﺎئی ﻧﮯ ﭼﮭﯿﻦ ﮐﮯ ﺑﯿﭽﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﻨﺪ ﻧﻮﺍﻟﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻠﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﺼﮧ ﺩینے ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻟﻮﭦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺑﻦ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺳﭻ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺭﺳﺘﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﺍﺷﮑﻮﮞ…

Read More

ایمان قیصرانی ۔۔۔ دھند اوڑھے ہوئے پھولوں کی گلی لگتی ہے

دھند اوڑھے ہوئے پھولوں کی گلی لگتی ہے تجھ سے بڑھ کر تو تری یاد بھلی لگتی ہے تم تو کہتے تھے سنبھالااسے بچوں کی طرح  پر یہ تصویر تو تھوڑی سی جلی لگتی ہے ایسے پلکوں پہ جما ہے میرے وحشت کا غبار عمر جیسے کسی صحرا میں ڈھلی لگتی ہے بعد آیات ِ کریمہ کے ، درودوں کے سدا سخت مشکل میں مجھے نادِ  علی لگتی ہے خُشک پلکوں پہ لئے زرد اداسی کے دیئے  کیا یہی لڑکی تمہیں نازوں پلی لگتی ہے؟ زندگی تلخ بھی ہے ترش…

Read More