ایمان قیصرانی ۔۔۔ آنکھوں میں ترا ہجر بسانے کے نہیں ہیں

آنکھوں میں ترا ہجر بسانے کے نہیں ہیں
یہ دن توسنو روٹھ کے جانے کے نہیں ہیں

تا عمر گوارا ہیں یہ مخمل سے اندھیرے 
آنکھوں سے ترے ہاتھ ہٹانے کے نہیں ہیں 

طائف ہو کہ ڈیرہ ہو یا ملتان کہ روہی 
ہم خانہ بدوش ایک ٹھکانے کے نہیں ہیں

کٹ جائیں نہ ان سےکہیں ماوں کے کلیجے
یہ اشک چھپانےہیں،دکھانے کے نہیں ہیں 

جس دشت میں کھویاتھا مرا سرخ کجاوہ
اس دشت میں ہم لوٹ کےجانے کے نہیں ہیں 

جو شعر ترے غم کی ریاضت سے ملےہیں
وہ شعر زمانے کو سنانے کے نہیں ہیں 

یہ سچ کہ نبھائ تری بے دام غلامی
سچ یہ بھی کہ اب دام میں آنے کے نہیں ہیں

کچھ چوم کے ماتھوں پہ سجانے کو ہیں ایماں
سب داغ تو دامن پہ سجانے کے نہیں ہیں

Related posts

Leave a Comment