فرحت عباس ۔۔۔ چراغ تعبیرِ معتبر

ابھی فضاؤں میں
خواہشوں کے مسرتوں کے حسین بادل
لطیف فردا کی کوکھ میں تھے
ابھی بہاروں کے رنگ سارے چمن میں پنہاں
نئی رُتوں کے پیامبر تھے
ابھی پرندے سفرکی جانب اُڑے نہیں تھے
ابھی سمندر محبتّوں کے بھی پُر سکوں تھے
ابھی خیالوں کی دلکشی میں وہ خواب تعبیر بن رہے تھے
کہ جن کی تعبیر مُعتبرتھی
نئے ستاروں کی رہگذر تھی
ابھی وفاؤں کے گلستاں میں
خزاں کا کوئی نشاں نہیں تھا
تو پھر یہ کس نے سکوں کے آنگن میں تیرگی کا غُبار چھوڑا
اُداسیوں کا لباس اوڑھا!
یہ میں نے دیکھا
مہکتے پھولوں کی تیز خوشبوبکھرکے جیسے سمٹ گئی ہو
کسی سے جا کر چمٹ گئی ہو
یہ میں نے دیکھا
کہ آندھیوں نے تمام آنگن اُجاڑ ڈالے
وہ خواب چہرے کہ جن میں تازہ لہوتھا جذبوں کی منزلوں کا
نئے دنوں کی جو اں رُتوں کے
ابھی وہ پتے جو شاخ ِاُمّیدِ مُعتبرپر
بہار اپنی دکھا نہ پائے
جو اَب لہوہیں گئے دنوں کا
وہ مسکراتے گلاب چہرے
حسین چہرے ، وہ خواب چہرے
جو گلستاں تھے، جو نوجواں تھے
جو اپنی دھرتی کی پیاسی مٹی کی پا سبانی میں
ایسے ڈوبے کہ مر کے نکلے
جنھیں زمیں نے نِگل لیا ہے
مگر خلاؤں کی وسعتوں میں
انھی ستاروں کی روشنی ہے
اُداس شاموں کی تیرگی ہے،
اُداس لمحوں کی بے بسی ہے
گئے سمے کے اُن آنگنوںمیں
گلاب چہروں کی زندگی ہے
جواں دماغوں کی قربتوں کی
خلوص و مہرو مراسمِ ربط دِائمی کی
حسین ِ یادوں کے فکر سورج کی روشنی ہے
اُداس شاموں ، نڈھال صبحوں !
طویل دُکھ کی ہر ایک شب میں
گئے دنوں میں کئے ہوئے
اُن رفاقتوں کی نئی سحر کے وہ عہدوپیماں
جو صدق و اخلاص کی متاع ِ گراں بہاتھے
جو آنے والے دنوں کی منزل کا راستہ تھے
انھی پہ چلنے کا عہد تا بندہ ترجواں ہے
وہ قہقہے اب نئی رُتوں کے پیا مبر ہیں
جو مہرو اخلاص و دوستی کی مہکتی یادوں کی رہگذر پر
جمال کشمیر کی شفق کو بڑھارہے ہیں
جہاں کو جینا سکھا رہے ہیں
رہ ِوفا میں یہی تو اثبات کا ہنر ہیں
چراغ ِ تعبیرِ ِمُعتبرہیں ،چراغ ِ تعبیر ِمُعتبر ہیں

Related posts

Leave a Comment