عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ غزل کا مطلع سنوار لیتے ہیں آؤ بالوں سے بالیوں سے

غزل کا مطلع سنوار لیتے ہیں آؤ بالوں سے بالیوں سے سجیلے ماتھے کے سرخ ٹیکے سے اور ہونٹوں کی لالیوں سے پُرانے کیمپس کے پیڑ ہاتھوں کا لمس پانے کے منتظر ہیں وہ شخص چھُو چھُو کے سبز کرتا تھا پھول جھڑتے تھے ڈالیوں سے یہ رسمِ تازہ گلاب پاشی بھی چیر دیتی ہے گُل کا سینہ کہ پھول مٹی میں رول دیتے ہیں لوگ چُن چُن کے تھالیوں سے مجاورانِ مزارِ اُلفت سے لوگ پوچھیں گے دفن کیا ہے ؟ تو پیر و مرشد! میں کیا بتاؤں گا،…

Read More

عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ سبھی پہاڑوں پہ برف پڑنے کے منتظر تھے

سبھی پہاڑوں پہ برف پڑنے کے منتظر تھے اور ایک ہم تھے کہ دل پگھلنے کے منتظر تھے خُنَک ہوا پھر لہو کی گردش بڑھا رہی تھی چراغ پَوروں میں پھر سے جلنے کے منتظر تھے وہ گرم ہاتھوں سے برف  پُتلے بنا رہی تھی جو بن چکے تھے وہ پھر بکھرنے کے منتظر تھے بُریدہ شاخوں پہ سرد ہوتے ہوئے وہ لمحے کسی کے لہجے سے پھول جھڑنے کے منتظر تھے وہ بون فائر کے پاس بیٹھی تھی اور شعلے نمیدہ آنکھوں سے بات کرنے کے منتظر تھے کسی…

Read More

عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ سگنل پر چالیس وہ لمحے برسوں ہم کو یاد رہے

سگنل پر چالیس وہ لمحے برسوں ہم کو یاد رہے گجرے والا بولا تھا جب، صاحب !! جوڑی شاد رہے چوراہے پر یاد ہے کیسے دیتا تھا مجذوب دعا تیرے گھر کا چولہا چوکھا صدیوں تک آباد رہے عقل و دانش، فہم ، فراست، ایک نظر میں ڈھیر ہوئے اُن کی پلکیں اُٹھنے تک بس، ہم اُن کے استاد رہے شب کی ہر سلوٹ سے پوچھو کیسے جاگے چاند اور میں سُونی رات کے اک بستر پر کیسے دو افراد رہے پریم نگر میں گارے مٹی سے بھی گھر بن…

Read More