عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ سگنل پر چالیس وہ لمحے برسوں ہم کو یاد رہے

سگنل پر چالیس وہ لمحے برسوں ہم کو یاد رہے
گجرے والا بولا تھا جب، صاحب !! جوڑی شاد رہے

چوراہے پر یاد ہے کیسے دیتا تھا مجذوب دعا
تیرے گھر کا چولہا چوکھا صدیوں تک آباد رہے

عقل و دانش، فہم ، فراست، ایک نظر میں ڈھیر ہوئے
اُن کی پلکیں اُٹھنے تک بس، ہم اُن کے استاد رہے

شب کی ہر سلوٹ سے پوچھو کیسے جاگے چاند اور میں
سُونی رات کے اک بستر پر کیسے دو افراد رہے

پریم نگر میں گارے مٹی سے بھی گھر بن جاتے ہیں
بنیادوں میں سچ کی پُختہ اینٹیں ہوں بس یاد رہے

خود پر اسمِ اعظم پڑھ کے خود کو ہی تسخیر کریں
کب تک اِس آسیب نگر میں تنہا یہ ہمزاد رہے

Related posts

Leave a Comment